ذکرِ خیر ایک وفاقی وزیر اور مقامِ اعراف کا !

نظریاتی اور اقتدار کی سیاست مقامِ اعراف پر آ ملی ہے، ان کا باہم رشتہ جتنا بھی’ ایک حقیقت ایک افسانہ ہو‘ لیکن جدتوں کے اس سیاسی موسم میں اِسے’’کلائمیٹ چینج پالیٹکس‘‘ کہنا غلط نہ ہوگا !
ایک شخص دیکھا، اس کے طرزِتکلم پر کئی منٹ غور کرتا رہا جو متاثر کن تھا، اس کی مالی دیانتداری پر بھی ذرہ برابر شک نہیں، رسمِ دنیا، موقع کی مناسبت اور دستور کے اعتبار سے بھی وہ صحیح ہے۔ وفا کہئے یا ایفا دیکھئے اس میں ہے، گولی کھائی، کالی کوٹھڑی کا بےجا کا مہمان وہ رہا، اشرافیہ کی پیداوار سہی مگر طالب علمی میں بھی سیاست کا شہسوار رہا، سائنس، انجینئرنگ ، بزنس اور فلسفہ کے علوم اس کے رگ و پے میں ہیں۔ پارٹی قدر کرتی ہے علاقہ ووٹ دیتا ہے، برادری ازم کے بظاہر وہ قائل نہیں، جب جب عنان اقتدار ان کے ہم نواؤں کے ہاتھ لگی وہ اگلی صف میں جلوہ افروز رہے۔ اپنے شہر کو نالج سٹی بنانے میں شبانہ روز کوشاں شخص اپنی ذات میں ایک انجمن ہو نہ ہو مگر ایک مضمون ضرور ہے جس کا مطالعہ اور ریسرچ سیاست کے ہر طالب علم کو کرنی چاہئے۔ انہی کی طرز کی ایک اور سیاسی شخصیت کا بھی مطالعہ ضروری ہے، وہ صاحب حساب کتاب اور کارکنان میں اتنی مِین مِیخ نکالنے کے عادی نہیں جتنی یہ نکالتے ہیں، شاید یہ علمیت میں اُن سے آگے ہوں تاہم وضع داری میں سکھر والے شاہ جی آگے ہیں بہرحال قدرِ مشترک یہ کہ دونوں اپنے شہر اور شہریوں کو علم و ہنر سے خواص بنانے کا عشق رکھتے ہیں۔
سکھر والوں کی بات پھر کبھی کرلیں گے، منتظر ہیں کسی روز اسلام آباد یاترا میں خورشید شاہ آف سکھر شریف اور رضا ربانی آف جمہور گلی سے ایک ہی دن نشست ہو جائے، باقی بھی مہان سہی لیکن میاں رضا ربانی کی دستوری شاگردی بہت ضروری ہے۔ اور وفاقی وزیر شیری رحمٰن و رضا ربانی سے بھی ایک مشترکہ ڈیٹا لینا ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں کہیں 18 ویں ترمیم کو بھی مقام اعراف پر لا کر ذبح کرنا گناہِ لازم تو نہیں ہو گیا؟ نہیں ہوا تورانا تنویر حسین کی وزارت میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے کیسے بل منظور کرائے جا رہے ہیں ؟
بظاہر لگا ہوگا میں موضوع سے دور نکل گیا اور شخصیت کا تذکرہ بھی چھوڑ دیا جس سے بات کا آغاز ہوا، لیکن ایسا نہیں کیونکہ نظریاتی سیاست اور اقتدار کی سیاست کے سنگم ہی پر ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ جو کل پرسوں کانوں میں پڑی وہ یہ کہ متذکرہ شخصیت نے ضیا الحق کے مارشل لا کو کھل کر برا کہا۔ اور صاف فرمایا کہ جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لا میں بھی پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی طرح دیارِ غیر میں جا کر یہ نہیں کہا کہ پاکستان کی امداد بند کردی جائے۔ یہ وہ بات ہے جو وفاقی وزیر احسن اقبال نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کی ایک تقریب میں کہی جس میں متعدد موجودہ اور سابق وائس چانسلرز اور کئی ماہرِ تعلیم مدعو تھے۔ اور وزیر موصوف نے ایجوکیشن یونیورسٹی کے مقام پر ایک کمال ایجوکیشن دی!راقم ’’بدترین ضیائی مارشل لا‘‘کی اصطلاح کو احسن اقبال کے منہ سے سن کر جمہوریت کے مستقبل کو کسی حد تک تابناک دیکھ رہا ہے۔ یہ اصطلاح اور اس سے متعلقہ جملہ سپرد قلم اس لئے کیا کہ سند رہے۔ بہرحال اعراف پر آنے کو جہنم سے نکلنا تو تصور کیا جاسکتا ہے! اہل نظر کو یاد ہوگا آپا نثار فاطمہ تمام مذہبی اور سیاسی حلقوں کیلئے قابلِ احترام تھیں ، یہی نہیں وہ بھٹو مخالف برانڈ بھی تھیں تبھی تو جنرل ضیاالحق کی مجلسِ شوریٰ کی ممبر بھی رہیں۔ پس یہ ثابت ہوا جو میثاق جمہوریت محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین ہوا اس میں کئی تعصبات کو پیوندِ خاک کرنے کے بعد کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ہاں ارتقا کی ڈگر کا آغاز ہوا۔ اور ایسا ہی ایک ارتقائی مگر فیصلہ کن مرحلہ میثاقِ معیشت کا بھی ضروری ہے جس کی دعوت آصف علی زرداری دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان ارتقائی نزاکتوں کو سابق وزیراعظم کو نیا پاکستان بنانے سے پہلے ذہن نشین رکھنا چاہئے تھا کہ کھری جمہوریت کے کنول متعصب جھیل کےپانی میں نہیں کھلتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کپتان کی سیاست کی ابتدا نے وجود ہی اس میثاقِ جمہوریت کے ردعمل کے طور سے پایا ہو، بہرحال ملکی سنگینی جہاں تک پہنچ چکی ہے اس میں ریاست کی خاطر تعصب کی عینک اتارنا فرض ہو چکا ہے۔ جو کبھی ضیائی پیرہن ہی کو پاکیزگی سمجھتے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک تصور کرتے تھے وہ خانوادے بھی آج ملکی پیداوار اور جمہوری بقا کیلئے آئینی زاویوں سے پرکھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس حقیقت کو کوئی اسٹیٹس-کو افسانے میں سِینچے لیکن یہ ایک دور اندیشی ہے جس کی جانب اب ملتان کو بھی لوٹ آنا چاہئے کہ روز روز بیساکھیوں یا محسنوں ہی سے نہیں بصیرت اور سیرت کی سِینچائی سے بھی امورِ ریاست چلتے ہیں!
جو یہ سوچتے ہیں وہ دن دور نہیں جب یہ پی ڈی ایم والے بھی خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتریں گے ، میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں لیکن ایک اتفاق وہ بھی مجھ سے کرلیں کہ یہ لوگ جمہوری شاہراہ کی جانب آئینی وفا اور جمہوری بقا کے دریچے کھلے رکھیں گے جو کپتان نے بند کردئیے تھے ، ورنہ اقتدار ان سے کبھی نہ چِھنتا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال ہوں یا رضا ربانی اور خورشید شاہ وغیرہ ان لوگوں نے ماضی سے یہی سیکھا ہے جس کا فیصل واوڈا و اسد عمر اور شہباز گل و مراد سعید کو تصور بھی نہ تھا۔ لیکن پرویز خٹک، فخر امام اور غلام سرور خان وغیرہ نے سمجھنے میں کیوں دیر کی یہ سمجھ سے باہر ہے؟
المختصر، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں ریاست کے توازن کیلئے جمہوری فکر، آئین فہمی اور صلح جوئی ضروری ہے۔ احسن اقبال وغیرہ کا ادراک قابلِ ستائش ہے لیکن بطورِ خاص احسن اقبال کے حضور ایک چیز دست بستہ کہنی ہے کہ زرخیز لیڈر شپ آگے لیڈر شپ کو جنم دیتی ہے۔ احسن صاحب! اس زرخیزی کی کمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو آئیوڈین کی کمی کی طرح خطرناک ہے بہرحال’’بد ترین ضیائی مارشل لا‘‘ کی ایجوکیشن کرنے/دینے پر آپ کا شکریہ!

اپنا تبصرہ بھیجیں