…نوکری کے متلاشی

…..ذرا ہٹ کے

پاکستان میں دو قسم کے لوگ ہر وقت نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں ‘ایک وہ جن کے دل میں ملک کا دردرہتا ہے ‘اور دوسرے وہ جن کو کام نہ کرنے کی وجہ سے ٹانگوں میں درد رہتا ہے ۔پہلی قسم کے ایک صاحب سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی ‘موصوف پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں ‘چالیس برس سے لند ن میں مقیم ہیں ‘مگر’’ نوکری‘‘ کی خاطر اکثر و بیشتر پاکستان تشریف لاتے رہتے ہیں ‘پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران ایک وفاقی محکمے کے سربراہ کے طور پر کام کر کے اپنی وفاداری کا لوہا منوا چکے ہیں ‘شوقیہ شعر بھی کہتے ہیں اور’’بھٹیؔ‘‘ تخلص ہے ‘آج کل جمہوریت کا جھنڈا ہاتھ میں تھام کر شاہراہ دستور پر بیٹھے ہیں ‘ایک نئی نوکری کی تلاش میں۔گذشتہ ماہ بھٹیؔ صاحب نے غریب خانے کو رونق بخشی اور خاکسار سے تفصیلی ملاقات کی جس کا خلاصہ یہ تھا ملک اس وقت شدید بحران کا شکا ر ہے ‘حکومت کی کوئی سمت نہیں ‘لوڈ شیڈنگ نے عوام کی مت مار رکھی ہے ‘ ہر طرف لوٹ مار مچی ہے ‘کرپشن کا دور دورہے ‘عوا م کی داد رسی کا کوئی ذریعہ نہیں ‘نظام ناکام ہو چکا ہے ‘لوگ بیزار ہو چکے ہیں ‘رہی سہی کسر میڈیا پوری کردیتا ہے ‘کوئی دن جاتا ہے کہ اس ملک میں انقلاب برپا ہو جائے گا اور خون کی ندیاں بہہ جائیں گی ‘اس سے پہلے کہ ایسا ہو اور لوگ جمہوریت سے بد ظن ہوں جس کے لئے انہوں (بھٹی ؔ صاحب)نے اس قدر طویل جدو جہد کی‘ مجھے چاہئے کہ پہلی فرصت میں وزیر اعظم صاحب سے ان کی ملاقات کا اہتمام کروائوں اور انہیں باور کروائوں کہ اگر ان تمام معاملات کو درست سمت میں چلانا ہے تو فوری طور پر بھٹیؔ صاحب کی تقرری کا نوٹیفیکیشن کیا جائے اور پھر انہیں کلی اختیار دے کر پانچ سال تک کچھ نہ پوچھا جائے ‘پانچ سال کے بعد اگر مطلوبہ نتائج نہ آئیں تو بے شک انہیں فارغ کر دیا جائے ۔
بھٹیؔ صاحب کی ملازمت کی یہ شرائط سننے کے بعد میں نے کچھ بولنا چاہا مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا جس کا مطلب تھا کہ ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہوئی ‘ پھرانہوں نے اپنا سانس درست کیا اور بولے ’’برخوردار ‘یوں تو تم عمر میں مجھ سے چھوٹے ہو مگر ابھی سے بہت سمجھدار ہواور میں جانتا ہوں کہ تمہاری پہنچ وزیر اعظم تک ہے (میں نے جان بوجھ کر ان کے اس تاثر کی نفی نہیں کی )‘بخدا مجھے اپنی نہیں اس ملک کی فکر ہے جس کے لئے میں دن رات سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہوں ‘ انگریزڈاکٹروں نے مجھے پاکستان کے بارے میں سوچنے سے پرہیز بتایا ہے مگر میں کیاکروں ‘میرے بزرگوں نے اس ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں ‘ مجھ سے اپنے ملک کی بربادی دیکھی نہیں جاتی ‘جب میں لندن میں ہوتا ہوں تو بہت کوشش کرتا ہوں کہ کسی پب میں بیٹھ کر بئیر کے دو گھونٹ پی کر اپنا غم غلط کر لوں ‘مگر یقین کرو کہ میرا دل پاکستان میں ہی اٹکا رہتا ہے ‘مجھے اس قوم کا غم اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے‘ پاکستان کے مستقبل کی فکر نے

میرے دل میں مستقلاً درد کر دیا ہے‘اب ڈاکٹروں نے مجھے ریڈ وائن تجویز کی ہے ‘کچھ دیر کے لئے اس سے دل کو سنبھالاضرور ملتا ہے مگراس کے بعد جب میںکوئی پاکستانی ٹی وی چینل آن کرتا ہوں اور وہی کشت و خون ‘دہشت گرد ی ‘ لوٹ کھسوٹ اور بد انتظامی کی خبریں دیکھا ہوں تو دل میں ٹیسیں اٹھتی ہیں ‘سوچتا ہوں کیا ہم نے یہ ملک اس لئے حاصل کیا تھا ؟ان حالات میں ضرور ی ہے کہ تم وزیر اعظم صاحب کو میرا سی وی پہنچائواور انہیں بتائو کہ بھٹی ؔاپنی تمام تر بیماریوں کے باوجود ملک کے وسیع ترمفاد میں چئیرمین پیمرا لگنے کو تیار ہے ‘گو کہ یہ جاب بہت تکلیف دہ ہوگی اورمیرے دشمنوں اور حاسدوں میں اضافہ ہوگا مگر ملک کے لئے یہ بھی منظور ہے ‘ پاکستان کو میری ضرورت ہے ‘ملک کی خاطر ایک قربانی اور سہی!‘‘یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں نے بھٹی ؔ صاحب کا سی وی احتیاط سے فائل میں رکھ لیا اور انہیں یقین دلایا کہ میں اس کام کی پوری کوشش کروں گا۔چند دن بعد ان کا فون آیا ‘موصوف جاننا چاہ رہے تھے کہ اب تک ان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن کیوں نہیں ہوا ‘جبکہ حالات دن دن بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔میں نے انہیں بتایا کہ ان کا کام تقریباً ہو چلا تھا مگرایک تکنیکی مجبوری آڑے آگئی ۔’’کیسی مجبوری ؟‘‘ بھٹیؔ صاحب نے بیتابی سے پوچھا ۔’’آپ کی دوہری شہریت۔‘‘میں نے اطمینان سے جواب دیا۔بھٹی ؔ صاحب لندن واپس جا چکے ہیں۔
نوکری کے متلاشی دوسری قسم کے لوگوں سے بھی آئے روز پالا پڑتا رہتا ہے ‘یہ وہ قسم ہے جو بیک وقت مجبور بھی ہے اور مختار بھی ۔مجبور اس طرح کہ انہیں نوکری کی ضرورت ہوتی ہے اور مختار ایسے کہ اپنی پسند کی نوکری ملنے تک یہ کوئی کام نہیں کرتے ‘اور ان کی پسند کی نوکری انہیں کبھی مل نہیں پاتی ۔ایسا ہی ایک نوجوان میرے دفتر آیا‘اپنے تئیں بے حد قابل اور مستعد‘ ابلاغیات میںایم اے پاس مگر بیزورگار‘سسٹم سے مایوس ‘ملک سے بیزار ۔’’اس ملک میں پیسے اور سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا سر‘میں کئی سال سے دھکے کھا رہا ہوں ‘جس جگہ بھی ملازمت کے لئے جاتا ہوں ‘وہاں پہلے سے ہی من پسند لوگ چنے گئے ہوتے ہیں‘ ہم جیسوں کو تو بس کاغذی کاروائی کے لئے بلایا جاتا ہے ‘انٹرویو میں ادھر ادھر کے دو چار بیکار سوالات کئے جاتے ہیں ‘اس کے بعد پھر کچھ بھی نہیں ‘اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے یہاں ‘سر۔‘‘اس قسم کی تقریرں چونکہ مجھے حفظ ہو چکی ہیں اس لئے مجھے نوجوان کے بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ‘میں نے اس سے کہا کہ آپ سمجھیںکہ آج آپ کا ٹیسٹ ہے ‘اگر آپ نے یہ ٹیسٹ صحیح دیا تو آپ کی نوکری پکی۔یہ سن کر نوجوان کو کچھ حوصلہ ہوا ‘میں نے اس کے آگے ایک کاغذ اور پین رکھا اور اسے کہا کہ گذشتہ روز ہونے والے ملکی واقعات میں سے اپنی مرضی کے کسی ایک واقعے کو چُن کر ایک ایسے خبر بنائیں جیسے آپ کسی اخبار میں رپورٹر ہیں اور آپ نے یہ سٹوری پندرہ منٹ میں فائل کرنی ہے ۔میری بات سُن کر نوجوان نے عجیب و غریب انداز میں ہنسنا شروع کر دیا ۔میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور ہنسنے کی وجہ پوچھی ‘اس نے بمشکل تمام اپنی ہنسی روکی اور کہا ’’سر ‘پہلی بات تو یہ ہے کہ پندرہ منٹ میں کوئی خبر نہیں بنائی جا سکتی اور دوسری بات یہ ہے کہ میںنے پچھلے ایک ہفتے سے اخبار نہیں پڑھا۔‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو موصوف نے ایک تاریخی

جملہ کہا ’’ٹائم ہی نہیں ملتا۔‘‘میں نے اپنی کرسی سے اٹھ کر نوجوان کے ماتھے پر بوسہ ثبت کیا اور اسے نیک تمنائوں اور پرنم آنکھوں کے ساتھ یوں رخصت کیا جیسے پرانی فلموں میں باپ بیٹی کو رخصت کرتا تھا۔
نوکری کے متلاشی ان لوگوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں ملازمت کی کتنی ہی شدید ضرورت کیوں نہ ہو‘اگر ان کے لئے کہیں سے نوکری پیدا کر لی جائے تو ان کا اگلا سوال ہوتا ہے ’’کام کیا ہوگا ‘تنخواہ کیا ملے گی ‘پانچ بجے کے بعد رکنا تو نہیں پڑے گا؟‘‘ ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات پانے کے بعدایسے لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ نوکری کر نی چاہئے یا نہیں۔اور با لفرض محال اگر ایسے لوگ نوکری کر بھی لیں تو چار دن بھی باس کے منہ پر استعفیٰ مار کے گھر بیٹھ بتاتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نوکری کام کرنے کے لئے کی جاتی ہے بے عزتی کروانے کے لئے نہیں ۔
دراصل ہمارا دماغ ایک نعرے نے خراب کر رکھا ہے اور وہ نعرہ ہے ’’ٹیلنٹ بہت ہے !‘‘ اس نعرے کی وجہ سے ہر شخص اپنے آپ کو خواہ مخواہ ٹیلنٹڈ سمجھتا ہے ‘اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس کے ٹیلنٹ کی قدر نہیں ‘اس لئے وہ ہر نوکری میں کیڑے نکالتا ہے کیونکہ وہ اس کے ’’ٹیلنٹ‘‘ کے شایان شان نہیں ہوتی ۔ایسے لوگوں کے حق میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے !

5 تبصرے “…نوکری کے متلاشی

  1. Wow, wonderful blog layout! How long have you ever been blogging for? you make blogging look easy. The total glance of your site is magnificent, as neatly as the content! You can see similar: sklep and here ecommerce

  2. Hi! I’ve been following your website for a while now and finally got the courage to go ahead and give you a shout out from Dallas Tx! Just wanted to tell you keep up the good work! I saw similar here: sklep online and also here: e-commerce

  3. Link exchange is nothing else however it is simply placing the other person’s website link on your page at suitable place and other person will also do same in favor of you. I saw similar here: Najlepszy sklep

  4. hey there and thank you for your information – I have certainly picked up anything new from right here. I did however expertise several technical issues using this web site, since I experienced to reload the website a lot of times previous to I could get it to load correctly. I had been wondering if your web hosting is OK? Not that I am complaining, but slow loading instances times will often affect your placement in google and could damage your high quality score if ads and marketing with Adwords. Anyway I am adding this RSS to my email and can look out for a lot more of your respective interesting content. Make sure you update this again very soon.. Najlepsze escape roomy

  5. Great post. I was checking continuously this blog and I’m impressed! Very helpful information specifically the last part 🙂 I handle such information a lot. I was seeking this certain info for a very lengthy time. Thank you and best of luck.

اپنا تبصرہ بھیجیں