آج مرثیہ لکھیں چوتھے ستون کا

نامور صحافی اور کالم نگار جناب حامد میر نے “آج مرثیہ لکھیں چوتھے ستون کا”کے عنوان سے ایک چشم کشا کالم لکھا ہے۔۔۔۔۔۔کالم کیا ہے،وطن عزیز کی سیاست اور صحافت کی ایک” تلخ تاریخ” ہے۔۔۔۔۔۔۔کالم کا لفظ لفظ پڑھنے قابل ہے لیکن “ایک لفظ “نے خوب صورت کالم کا سارا حسن بگاڑ دیا ہے۔۔۔۔لکھتے ہیں اور سچ لکھتے ہیں:ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ صحافت کے اس “مکتبہ فکر”سے ہے جس کے سرخیل منہاج برنا۔۔۔۔نثار عثمانی اور حسین نقی ہیں۔۔۔۔۔حامد میر صاحب ایسے قد آور صحافی مکتب فکر کو “مکتبہ فکر “لکھیں اور روزنامہ جنگ ایسے بڑے اخبار میں مکتب فکر کے بجائے “مکتبہ فکر” چھپ جائے تو یہ بھی چوتھے ستون کا مرثیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

بات چلی ہے تو عرض کردیں کہ ہمارا خیال ہے حامد میر صاحب خوش آمدید کو بھی درست تلفظ کے ساتھ نہیں بولتے۔۔۔وہ آمدید کی پہلی د کے نیچے زیر کے بجائے زبر پڑھتے سنائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔جس سے لفظ کا صوتی حسن پیچ و تاب کھاتا ہے۔۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔حامد میر صاحب ہمارے استاد بھی ہیں کہ انیس اٹھانوے میں انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم ایس سی ماس کمیونیکشن کے پہلے سیمسٹر میں ہمیں کالم نویسی پر ایک لیکچر دیا تھا ۔۔۔۔تب وہ اوصاف کے ایڈیٹر تھے اور اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے کے باعث ان کا نام زبان زد عام تھا۔۔۔اس لیے کوئی بدخواہ اسے “تنقید” نہ سمجھے۔۔۔یہ اپنی بات ان تک پہنچانے کی ایک “سبیل”ہے۔۔۔۔
شومئی قسمت کہ ابھی ایک مہینہ پہلے یہ “لطیفہ نہیں”دکھڑا”ہے ۔۔کے عنوان سے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ دوستوں سے دست بستہ عرض ہے کہ اسے محض ایک ” لطیفہ” نہیں ایک صحافی کا” دکھڑا” سمجھیں۔۔۔۔۔اردو کی” پامالی” اور صحافت کی” بدحالی” کا نوحہ۔۔۔۔
گزشتہ شب۔۔۔۔۔بچوں کے بال کٹوانے کے لیے حجام کے پاس جانا ہوا۔۔۔۔ادھر بیٹھے بیٹھے اکتا گیا تو وہاں پڑے ملک کے سب سے بڑے قومی اخبار پر نظر پڑی ۔۔۔۔۔۔ورق گردانی کرتے ایک خبر پر نظر ٹھٹک گئی۔۔یہ اردو کے قد آور ادیب جناب جمیل جالبی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کے شرکا کی گفتگو کا احاطہ کرتی تین کالم پر محیط پورے اہتمام سے شائع خبر ہے۔۔المیہ یہ ہے کہ ا ردو کے بڑے ادیب کے حوالے سے خبر میں اردو زبان کی غلطی نہیں “غلطان” چھپا ہے کہ جالبی صاحب زندہ ہوتے تو رو دیتے ۔۔۔۔۔خبر کے متن اور سرخی میں لکھا ہے کہ جالبی صاحب ایک “مکتبہ فکر” تھے ۔۔۔۔۔۔۔حالاں کہ یہ “اصطلاع “مکتب فکر کہلاتی ہے ۔۔۔۔۔کسی زمانے میں رپورٹنگ کی ایسی غلطیاں نیوز ڈیسک پر پکڑی جاتی تھیں لیکن پھر تعلیم اتنی “عام “ہوگئی کہ غلطیاں بھی “خاص” نہ رہیں۔۔۔۔۔۔اب ہر کوئی
” نابغہ” ہے اور اس کا لکھا اور فرمایا ہوا “مستند” ٹھہرتا ہے۔۔۔۔۔

بات ہورہی تھی مکتبہ فکر کی ۔۔۔۔تو عرض ہے کہ مکتبہ عربی میں کتب خانے یا لائبریری کو کہتے ہیں۔۔جبکہ اردو میں کسی اشاعتی ادارے کو بھی مکتبہ کہا جاتا یے۔۔۔۔مکتب بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں لکھنے پڑھنے کی جگہ ۔۔۔درس گاہ۔۔۔۔مدرسہ۔۔۔۔سکول۔۔۔۔۔۔ہیں۔۔۔مکتب ِ فکر کا مطلب ہے کسی خاص نظریے یا نظریات کا مجموعہ، نیزکوئی خاص فلسفہ یا فکر یا اس کے ماننے والے۔۔۔۔۔ شعر و ادب یا مصوری کے کسی خاص انداز یا اسلو ب کو بھی مکتب فکر کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔مکتب فکر کو انگریزی میں school of thought کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔اسی طرح مکاتب اور مکاتیب بھی دو الگ الگ لفظ ہیں۔۔۔۔۔۔مکتب( یعنی سکول) کی جمع ہے مکاتب۔۔۔۔یعنی مکتب ِ فکر کی جمع ہوگی مکاتب ِ فکر۔ جبکہ مکاتیب جمع ہے مکتوب کی۔ مکتوب کے معنی ہیں خط۔۔۔۔چٹھی اور رقعہ۔۔۔۔۔اور۔۔۔مکاتیب خطوط اور چتھیاں۔۔۔۔۔۔ جیسے مکاتیب ِ شبلی یعنی شبلی کے خطوط۔۔۔۔۔۔…
بہر کیف میر صاحب نے اپنے کالم کے عنوان کے لیے کیا کمال شعر کا انتخاب کیا:
آج مرثیہ لکھیں ۔۔۔۔۔۔۔چوتھے ستون کا

یعنی قلم کی موت،صحافت کے خون کا

اپنا تبصرہ بھیجیں