احتجاجی تحریکوں میں تشدد کیوں ؟

ہماری آج کی تہذیب یافتہ جمہوری دنیا میں احتجاج کا حق ایک مقدس بنیادی انسانی حق کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا ہے جسے یو این یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر کےتحت تمام ممالک کے جمہوری دساتیر میں فنڈا مینٹل رائٹس کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے محض ایک شرط کے ساتھ کہ یہ احتجاج بہرصورت پرامن ہو گا آپ کی اس ایجی ٹیشن سے کسی کی جان ومال یا عزت کو نقصان یا خطرہ نہیں ہو گا۔
اسی طرح دنیا میں سیلف ڈیفنس یا حفاظت خود اختیاری کو قانون کی نظر میں اس قدر تحفظ حاصل ہے کہ جوابی طور پر اگر آپ حملہ آور کی جان بھی لے لیتے ہیں تو THERE IS NO LIABILITY مدافعت کا یہ حق یا تحفظ محض جان کے حوالے سے نہیں ہے دیگر تین چیزوں کو بھی لائف یا زندگی کے برابر اہمیت ہے۔ (1)مال یا املاک (2)کسی بھی خاتون کی آنر یا عزت (3)کسی بھی لڑکے یا میل کی آنر پر اگر کوئی دوسرا مرد حملہ آور ہو تو اسے بھی سیلف ڈیفنس کا اس قدر حق ہے کہ لائف پر بھی LIABILITY نہیں ہو گی ہماری آج کی مہذب دنیا میں یہ حقائق بنیادی و جوہری احترام کے حامل ہیں۔
یہاں ہماری سوسائٹی میں سماجی و عوامی سطح پر حق زندگی کے متعلق تو احساس و ادراک ہے جبکہ حق مال و عزت پر وہ حساسیت نہیں ہے اس کی وجہ صرف لاعلمی و جہالت ہے ورنہ عامۃالناس کی دلچسپی و ابلاغ کیلئے درویش ایک معروف روایت کا حوالہ دینا چاہتا ہے جو اسے بچپن سے ازبر ہے ۔
من قتل دون مالہ فھداشہید یعنی جو شخص اپنے مال املاک کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے اس طرح ایک جگہ آبرو کا ریفرنس بھی ہے مطلب کہ شرعی لوگوں کو بھی یہ ادراک ہونا چاہئے کہ جان کے بعد مال املاک اور آنر کی کیا اہمیت ہے۔
برٹش سوسائٹی میں ارتقاء کے ساتھ جب قوانین میں شعوری ترقی کی مطابقت میں باریکی کے ساتھ بہتر تدوین ہوتی چلی گئی تو یہ اپروچ صدیوں پہلے نکھرنا شروع ہو گئی یوں جائز ردعمل اور ناجائز ردعمل میں فرق واضح ہوا، احساسات کو چوٹ لگنے پر فطری و بدیہی فوری ری ایکشن اور پلاننگ کےتحت دوسرے کی جان، املاک یا آبرو پر حملہ آور ہونے کی باریکیوں کو واضح کیاگیا پرامن یا جائز احتجاج کے بالمقابل AFFAEYبلوہ ، دنگا، فساد، مارکٹائی یا جلائو گھیرائو کی باریکی میں فرق کو واضح کیا گیا جس میں پلاننگ کو بنیادی اہمیت دی گئی ارادے کی طرح۔
ہماری انڈین ہسٹری یا پاک ہند تاریخ میں دنگے یا بلوے کی بدترین مثال اٹھارہ سو ستاون کا عذر ہے جس کے مرتکبین کو جان کے ساتھ ساتھ املاک کے اتلاف پر بھی ویسی ہی کڑی سزائیں سنائی گئیں اس کے بعد یہاں احتجاج کی ایک پوری تاریخ ہے جس کا سرخیل مہاتما گاندھی کو خیال کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یو این کے تحت 2اکتوبر کو نان وائیلنس ڈے ان کی پیدائش سے منسوب کرتے ہوئے انہیں عالمی سطح پر نان وائیلنس یا عدم تشدد کا سمبل یا پرچارک تسلیم کر لیا گیا آج اگر کسی بھی پرامن احتجاج پر کوئی لاٹھی اٹھاتا ہےتو پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے لیکن اگر کوئی اپنے احتجاج میں تشدد کی آمیزش کر بیٹھتا ہے اور ردعمل میں چاہے کوئی ڈکٹیٹر ہی ہو اسے کچل کر رکھ دیتا ہے تو دنیا کی خاموشی اسے سند جواز بخش دیتی ہے فلسطین اور کشمیر اس کی دو خوبصورت مثالیں ہیں مگر افسوس کہ مسلم ورلڈ بالخصوص ہمارے بیشتر پاکستانی یا ہمارا میڈیا اس کی معنویت و اثرافرینی کوسمجھنے سے عاری و قاصر ہیں دیگر کئی پسماندہ اقوام میں بھی اس کی سنگینی کا ادراک نہیں۔
ہمارے روایتی مسلم ذہن کی بدقسمتی ہے کہ وہ زمانی شعوری ترقی کے دوش بدوش نہیں چل سکا یہ آج بھی صدیوں پرانے اپنے جہادی نظریہ میں الجھے ہوئے لوگ ہیں یا اس کے زیر اثر سوچ سے باہر نکل ہی نہیں پا رہے۔ درویش نے یہ امر واضح کرنے کیلئے نائن الیون کے بعد ایک پوری کتاب لکھ ماری ’’ جہاد یا دہشت گردی ؟‘‘ لیکن ہمارے روایتی سماج میں اسے خاص پذیرائی نہ مل سکی ہم آج بھی اپنے اسی قدیمی جہادی تصور میں الجھے ہوئے ہیں اور دنیا میں اپنا ہی نہیں اپنے نظریے کا بھی نام خراب کر ا رہے ہیں۔ہمارے ماضی کے مسلم سماج میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں اٹھیں وہ ہمیشہ براستہ احتجاج تشدد پر منتج ہوئیں یہاں ان کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔
بیسویں صدی پر ہی اکتفا کر لیں تو ایسی تحریکوں کی اتنی بھرمار ہے کہ طائرانہ تفصیل کیلئے بھی کتاب درکار ہے ۔ایک فقرے میں اس کا بیان یوں ہے کہ ان سب کی بربادی تشدد کی آمیز ش سے ہوئی ہے اور ہو رہی ہے جدید دور یا عصر حاضر میں اس کی بدترین مثال اخوان المسلمون کی بھرپور منظم تحریک ہے جسے تشدد کی آمیزش کے باعث صدر جمال عبدالناصر نے کچل کر رکھ دیا اور دنیا نے کوئی ہمدردی نہیں دکھائی۔ شاہ ایران کے خلاف عوامی بغاوت اتنی بھاری و ہمہ گیر تھی کہ مغرب کی شعوری و ابلاغی طاقت بغاوت کی پشت پناہ بن گئی تھی یہ قطعی الگ بحث ہے اور اب ولایت فقیہہ کے خلاف جو عوامی تحریکیں اٹھ رہی ہیں وہ نہ تو اتنی ہمہ گیر ہیں اور نہ تشدد کی آمیزش کے قطعی بغیر ۔
درویش کا دعویٰ ہے کہ عصر حاضر میں کوئی بھی عوامی تحریک تشدد کی آمیزش کے ساتھ کامیاب نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ وہ عوامی پذیرائی کے ساتھ اتنی ہمہ گیر ہو کہ پورے سسٹم کو لے ڈوبے اسی کو آج کی دنیا انقلاب کا نام دیتی ہے یا پھر اسے طاقتور ماورائی مسلح طاقت کی اشیر باد حاصل ہو۔تحریک پاکستان کا اگر حقائق اور سچائی کی کسوٹی پر جائزہ لیا جائے تو وہ جلائو گھیرائو یا تشدد سے ہرگز پاک نہ تھی بلکہ اس اپروچ کی تمامتر الائشیں اس کے شامل حال تھیں لیکن اندر سے اسے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی پوری اشیرباد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ 16اگست 1946ء کو جناح صاحب نے جب ڈائریکٹ ایکشن یا راست اقدام کی کال دی بلکہ بالفعل باضابطہ طور پر جلائو گھیرائو یا تشدد کا آغاز نواکھلی اور کلکتہ سے کیا تو ہمیں کہیں بھی اسٹیبلشمنٹ یا سرکاری فورس کی روک یا رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی نتیجتاً مابعد اس آگ نے پورے خطے کو لپیٹ میں لیتے ہوئے توڑ پھوڑ کر ہی رکھ دیا بلکہ نہ ختم ہونے والی منافرتوں کی باضابطہ بنیاد رکھ دی یوں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنا دیئے گئے اور کروڑوں دربدر و بے گھر ، وجہ اس کی یہ تھی کہ لیگ کی لڑائی سرکار کی اشیرباد سے اس عوامی تحریک کے ساتھ تھی جو ولایتی سرکار کو نکال باہر کرنا چاہتی تھی اگر عدم تشدد پر ایمان رکھنے والی کانگریس قیادت میں شعوری بلندی ہوتی تو وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ٹھہرائو لاتی اور وہ لیگ یا بدیسی سرکار سے کمپرومائز کرتی مگر انہوں نے اقتدار کی حرص میں مقتدر حریفوں کے سامنے سرنگوں ہونا اور ملک تڑوانا قبول کر لیا اسی لئے ہمیں فریڈم ایٹ مڈنائٹ یا بیسویں صدی کے نصف کا ہندوستان ایک لاوارث انڈیا دکھتا ہے اسی تاریکی سے خطے میں پھلائی گئی منافرت آج بھی جاری و ساری ہے۔قیام پاکستان کے بعد پہلی ایجی ٹیشن یا احتجاجی تحریک ختم نبوت کے نام پر تھی جسے درپردہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یا اشیرباد حاصل تھی اور اسی کی برکت سے یہاں مارشل لائوں کا باقاعدہ آغاز ہوا یا اسٹیبلشمنٹ سویلین اتھارٹی پر حاوی ہو گئی ۔یہ کہنا غلط ہو گا کہ پی این اے کی ایجی ٹیشن کامل عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا تھی مگر اس کی کامیابی میں بنیادی فیکٹر جہاں جنا ح ثانی کا جبر تھا وہیں اس احتجاجی تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی ایک نوع سے تھپکی یا ہمدردی شامل تھی اور یہ امر واضح رہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ واحد ہمہ گیر عوامی تحریک تھی شاید اسی لئے ضیا جیسے بھٹو کے وفادار کی سوچ میں الٹی تبدیلی آئی۔
ایم آرڈی کی تحریک ہمہ گیر تو نہ تھی لیکن عوامی حمایت سے قطعی تہی دامن بھی نہ تھی اور اس میں تشدد کی آمیزش سے شاید کوئی بھی انصاف پسند شخص انکار نہیں کر سکتا طاقتوروں کے اندر کی کسی پاکٹ سے اسے اشیرباد بھی حاصل نہ تھی اس لئے کچل کر رکھ دی گئی ۔ یوں اسے اندرون ملک یا بیرون ملک کسی نوع کی کوئی ہمدردی یا حمایت بھی حاصل نہ ہوسکی۔ شیخ مجیب الرحمن کی پرتشدد عوامی تحریک کیونکر کامیابی سے ہمکنار ہوئی اس کا حالیہ تشدد سے تقابل کرتے ہوئے جائزہ ہم بعد میں لیں گے پہلے موجودہ صورتحال کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔
اس امر میں کوئی شائبہ نہیں رہا کہ 9مئی کا ڈائریکٹ ایکشن یا یوم راست اقدام نہ صرف تشدد یا جلائو گھیرائو سے معمور تھا بلکہ باضابطہ طور پر پری پلانڈ تھا جسے شک ہے وہ ڈاکومینٹری ثبوتوں سے بڑھ کر پشاور سے لیکر لاہور تک پورے ملک میں عسکری اہداف پر ہونے والے منظم حملوں کی تفصیلات ملاحظہ فرمالے اس پرتشدد ایجی ٹیشن کا اصل ہدف یا ٹارگٹ موجودہ آرمی چیف کے خلاف عسکری ادارے کے اندر سے بغاوت کو کامیاب کروانا تھا جس کی ایک دوسری سے ملتی جلتی بہت سی کڑیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہو گا کہ اس مشکل ٹارگٹ کا حصول ناممکن نہ تھا یہ ساری منصوبہ سازی کیونکر ناکام ہوئی اس پر بحث اگلی قسط میں )

اپنا تبصرہ بھیجیں