ہندوستان ہم سے آگے کیوں ؟

یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ دنیا اور خطے کے آگے بڑھنے کے ساتھ پاکستانیوں کو گھٹن بھری معاشی صورتحال میں سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے، ہر طرف بے یقینی ہے، مزدوروں کی زندگی تو تباہ حال ہے کوئی پرسان حال نہیں،ملک کی اشرافیہ جن غلطیوں کی عادی ہے، ان کے نتائج مستقبل کا راستہ اور بھی مشکل بنا دیں گے۔ ہم طویل عرصے سے جس گہری نیند میں ہیں وہ صرف ایک سخت بیداری کا سبب بنے گی، جس کے بعد حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ ہماری حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فیصلہ سازوں کی جانب سے کھلی غفلت اور دور اندیشی کی کمی اتنی واضح ہے کہ اس کے بارے میں مزید بات نہیں کی جا سکتی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پورے ملک میں چند گھرانوں کی حکمرانی ہے جو ہر 5 سال بعد کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں جنہیں صرف اپنے آشرافیہ کا ہی خیال رہتا ہے باقی عام آدمی کا کیا کرنا یہ ان کا مسئلہ نہیں۔
آئیے ہم انسان کے سب سے بنیادی حق سے شروع کرتے ہیں: کھانا اور پانی۔ پاکستان، اپنی پانی کی ضروریات پر غور کرنے، حساب لگانے اور اس کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے، تیزی سے پانی کی کمی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جہاں زیر زمین پانی بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ذخیرہ کرنے کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے، ملک سال کے نصف حصے کے لئے تباہ کن سیلاب سے دوچار رہتا ہے، جبکہ خشک سالی سال کے باقی دنوں میں ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ سندھ کے علاوہ کسی صوبے نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیم نہیں بنائے ہیں، جس سے ہر چند سال بعد بارش سیلاب کی صورتحال میں تباہی مچاتے نظر آتی ہے۔ پورے ملک کا پانی جب دریا سندھ میں گرتا ہے تو ڈیم بنانے کے باوجود تباہی سندھ کا ہی مقدر بن جاتی ہے، سیلابی پانی دریا کی ریت جگہ جگہ چھوڑ جاتا ہے جس سے زمین قابل کاشت نہیں رہتی۔اس سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر سال ہم مقامی لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کم فصل کی پیداوار کر رہے ہیں۔ اس سال کپاس نے گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے کم پیداوار ظاہر کی ہے۔خوراک کی کمی کے نتیجے میں ہمارے تقریبا آدھے بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ خوراک کی کمی اور غذائی قلت کی وجہ سے بچے اپنی علمی اور جسمانی صلاحیتوں کو مکمل طور پر فروغ دینے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا وہ ملک کے مستقبل میں کوئی پیداواری کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
غذائی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی غذاء پوری کرنے کے چکر میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے جس سے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتے نظر آرہا ہے، کیوں کہ لوگوں کے پاس اب دو ہی آپشن نظر آتے ہیں یا تو اپنی غذائی ضروریات پوری کریں یا پھر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کروائیں۔ دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔پاکستان میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر اور سڑکوں پر ہیں۔ جو بچے سڑکوں پر نظر آتے ہیں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی سے بھی محروم ہیں۔جو لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کافی خوش قسمت ہیں انہیں ایک فرسودہ نظام سے نمٹنا پڑتا ہے جو صرف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے بچوں کے پاس ڈگری کا ٹکڑا آجائے، یہ تعلیمی نظام اتنا فرسودہ ہے کہ اس سے ڈگری حاصل کرنے والے کسی عالمی ادارے میں جگہ ہی نہیں بنا پاتے۔
دوسرے طرف انڈیا کا نظام تعلیم ہے جہاں سے بچے پڑھے کر گوگل، ٹویٹر، فیس، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا حصہ بن رہے ہیں اور ہمارے بچوں پی ٹی آئی میں شامل ہوکر پاکستان اور بیرون ملک رسوائی کا سامان بن رہے ہیں۔۔ تعلیم کا کم معیار اور آبادی کی بلند شرح مل کر آنے والی تباہی کا واضح اشارہ پیش کرتے ہیں۔ چیزوں کو بدتر بنانا صنفی فرق ہے۔سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا غلط استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ کے بعد، آج ہم وسیع پیمانے پر مذہبی جنونیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قومی بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ قومی ایکشن پلان میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آگے کا راستہ الجھن اور غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں افراد مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی انتشار اور لاقانونیت کی وجہ سے ریاستی ادارے اپنے فرائض پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اختیارات کو وسعت دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، کیا ہمیں کسی بھی سرمایہ کار سے موجودہ مارکیٹ سے وابستہ ہونے کی توقع کرنے کا حق ہے؟ اپنے آپ کو ایک سرمایہ کار تصور کریں اور آپ جواب دیں کہ کیا آپ سے ملک میں سرمایہ کاری کریں گے جہاں رشوت کے بغیر کوئی کام ہی نہ ہوتا ہو. جہاں پاکستانی اس ملک سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں باہر منتقل ہورہے ہیں کیوں کہ انھیں اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، جب ملک کے انسانی وسائل ملک سے باہر جانے کے لئے تیار ہیں تو یہ توقع کرنا بالکل غیر منطقی ہے کہ لوگ بیرون ملک سے اپنے مالی وسائل لا کر آج کے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے ہندوستان 2001 تک ہم سے معاشی لحاظ میں پیچھے نہیں تھا تو آگے بھی نہ تھا ؟ کیا وجہ ہے آج وہ عالمی معیشتوں میں سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے باوجود اس کے کہ وہاں درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں، باوجود اس کے کہ وہاں ہندو ہٹ دھرمی کی وجہ سے اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، لیکن ہندوستان ہم سے آگے نکل گیا کیوں کہ انھوں نے اپنے وطن میں مسائل کا حل ڈھونڈا اور نظام تعلیم بہتر کیا، اور ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ کیا یہ ہی وجہ کہ دنیا کی بڑی کمپنیاں وہاں کام کرنے کا تیار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں