کرکٹ ہار پر افسردہ کیوں

بڑا عرصہ ہوا کرکٹ دیکھنی تقریبا چھوڑ دی ہے۔ ابھی پاکستان افغانستان والے میچ کا بھی وہ حصہ دیکھا جس میں افتخار احمد کھیل رہا تھا۔ پاکستان کی ہار کے بعد اپنے دفتر گیا تو ربیعہ احسن اور رانا اشرف افسردہ بیٹھے تھے۔ ربعیہ تو بہت ہی افسردہ بلکہ غصے میں تھی۔ وہ بڑی دیر تک بولتی رہیں ٹیم کے ساتھ یہ ہوا اور ٹیم ساتھ وہ ہوا۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ افغان لڑکے جنہیں ہم نے کرکٹ سکھائی، کوچنگ کرائی انہوں نے ذلیل کر کے ہرایا کہ شرم آرہی ہے۔
میں نے اس کا دل رکھنے کو کہا انگلینڈ بھی تو افغانستان ٹیم سے ہار گیا جس نے پوری دنیا کو کرکٹ کھیلنی سکھائی تھی۔اگر ہم ہار گئے تو پھر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا؟ یہ انہونی تو ایک دن ہونی تھی۔ دوبئی میں دو دفعہ ہم میچ تقریبا افغانستان ٹیم سے ہار چکے تھے۔ ایک دفعہ آخری آوور میں محمد آصف نے چھکے مار کر میچ جتوا دیا تو اگلی دفعہ پھر آخری اوور میں نسیم شاہ نے دو چھکے مار کر میچ جتوا دیا۔
یہ ذہن میں رکھیں جس ٹیم کے خلاف آپ میچ آخری اوور میں دو دفعہ مشکل سے جیت پائیں تو کسی وقت بھی وہ ٹیم آپ سے کسی وقت بھی میچ جیت سکتی ہے ۔ لہذا افغانستان کا جیتنا کچھ دنوں کی بات تھی۔ ہم نے کیوں سوچ رکھا ہے جن لڑکوں کو ہم نے کرکٹ سکھائی یا کوچنگ کرائی وہ ہم سے احتراما ہارتے رہیں گے؟ آپ پاکستان کوچز کو الٹا داد دیں جنہوں نے ان افغان لڑکوں کی اتنی اچھی کوچنگ کی تھی کہ انہوں نے پاکستان اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم تک کو ہرا دیا ہے۔ میں نے کہا دوسری ٹیمیں یا لڑکے بھی تو تیاری کرتے ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح کھانا کھاتے ہیں۔ وہ بھی میچ جیتنے آتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں میں جیت کی وہ بھوک نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر عام بیک گراونڈ اور تقریبا معمولی تعلیم ساتھ میدان میں اترتے ہیں لہذا بقول ہمارے دوست اقبال دیوان ان کے اندر احساس کمتری زیادہ ہوتا ہے۔ self respect کی کمی ہوتی ہے اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ پورے ملک کے لیے جیت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اگرچہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن جب آپ کھلاڑیوں کو لگتا ہےافغانستان سے بھی ہار جانا ایک معمول کی بات ہے تو وہ کروڑں پاکستانیوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھ رہے۔
اگر آپ ان تین کھلاڑیوں کا بیک گراونڈ چیک کریں جنہوں نے لارڈ ز کے میدان میں میچ فکس کر کے چند ہزار پونڈز کھرے کر لیے تھے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا ان کے لیے ملک کی عزت، کھیل کا وقار یا ذاتی برتری کے احساسات کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ ایک دو نو بالوں کے عوض یا وکٹ گنوانے کے بدلے آپ کو پانچ دس ہزار پونڈز مل رہے تھے تو آپ کا لگا آپ کا کام ہوگیا۔ جب آپ اپنا وقار چند ہزار پونڈز میں بیچ دیں تو پھر اس امریکن کو گالیاں دینے کا کوئی تک نہیں بنتا جس نے کہا تھا پاکستانی تو پانچ ڈالرز کے بدلے ۔۔۔کو بیچ دیں۔ اگرچہ اس جملے نے ہم سب کو بہت دکھ دیا تھا لیکن جب لارڈز میں کچھ برس بعد یہی کام چند ہزار پونڈز میں کیا گیا کہ ملک کی عزت بیچی گئی تو کس منہ سے ہم امریکن کو غلط کہہ سکتے تھے۔ دھرتی بھی تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔
یاد پڑتا ہے ڈاکٹر ظفر الطاف پہلے مینجر ورلڈ کپ 1999 بنے اور ٹیم کو انگلینڈ لے گئے اور پھر چیرمین کرکٹ بورڈ بھی بنے۔ان سے کھلاڑیوں کی کئی کہانیاں سنی ہوئی ہیں۔ وہ کرکٹرز جو آپ کو دور سے مہان نظر آتے ہیں وہ اندر سے کس قسم کے کردار کے مالک ہیں ۔ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں سننے کو ملتی تھیں کہ آپ منہ میں انگلیاں دبا لیں۔
یہ باتیں کوئی آج کے موجودہ لڑکوں بارے نہیں تھیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے 1960 کی دہائی میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہوئی تھی۔ وہ انڈیا کے دورے پر جانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہیں وہیں ٹیسٹ کیپ ملنی تھی۔ رات کو کہا گیا کہ صبح آپ نے کھیلنا ہے۔ ٹاس سے قبل کپتان نے بڑی شرمندگی سے کہا ظفر آپ نہیں کھیل رہے کیونکہ کراچی کے محمد برادرز کا کہنا ہے اگر ان کے بھائی کو ڈراپ کر کے نئے لڑکے کو موقع دیا گیا تو وہ میچ نہیں کھیلیں گے۔ نوجوان ظفر الطاف اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وطن واپسی پر کرکٹ چھوڑی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے بعد مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ مشرقی پاکستان میں پہلی پوسٹنگ اسٹنٹ کمشنر ملی۔ پھر وہ حفیظ کاردار ساتھ کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری رہے، پھر سیلکٹر بنے ، مینجر کرکٹ ٹیم اور پھر چیرمین کرکٹ بورڈ بنے۔ لہذا ان کے پاس پاکستان کرکٹ کی تقریبا چالیس پچاس سالوں سے زیادہ کی تاریخ موجود تھی۔ سب کچھ پتہ تھا لہذا جب وہ باتیں بتاتے تو حیرت سے منہ میں انگلیاں دبا لیتے ۔
اس وقت اگرچہ کچھ کھلاڑی بہتر تعلمیی اداروں سے آتے تھے لیکن ٹیم کے اندر یاری دوستیاں رشتہ داریاں اور گروپنگ اس وقت بھی چلتی تھی جیسے آج کل ہے۔ جاوید میانداد کی کپتانی کے خلاف بغاوت کرنے والے زیادہ تر لاہور کے کھلاڑی تھے جس کے سربراہ عمران خان تھے۔ لاہور کراچی کی یہ تقسیم آج بھی ٹیم میں موجود ہے۔ جاوید میانداد اور عمران خان کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہیں رہے۔ ہر دفعہ عمران خان ٹیم میں واپس آیا تو وہ کپتانی کی شرط پر واپس آیا۔جاوید میانداد کو ہر دفعہ کپتانی کی قربانی دینی پڑی۔ عمران خان کی اپنے کزن ماجد خان کو ٹیم سے نکلوانے کے پیچھے میرٹ کی بجائے ایک احساس تھا کہ وہ ماجد خان کی ٹیم میں موجودگی میں اسے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرسکتے تھے۔ماجد ان کے بڑے کزن تھے جو انہیں کرکٹ میں لائے تھے۔ لہذا عمران کو ایشو رہتا تھا۔ ورنہ جب ماجد خان کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ عمران خان نے کرایا تھا تو ڈاکٹرظفر الطاف بورڈ میں تھے۔ انہوں نے عمران خان کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ابھی ماجد خان میں دو تین سال کرکٹ باقی تھی اسے ریٹائر کرنا نہیں بنتا۔ ہر کھلاڑی آوٹ آف فارم ہوجاتا ہے۔ لیکن عمران کو موقع کی تلاش تھی لہذا بھارت کی ٹیم خلاف جب ماجد پرفارم نہ کرسکے تو عمران خان کو موقع ملا کہ وہ اپنے اس ہیرو سے جان چھڑائیں۔ شاید عمران خان اپنی جگہ ٹھیک تھا کہ بندہ کب تک بچپن کے ہیرو کی پوجا کرتا رہے۔ انسان زندگی میں جوں جوں grow کرتا رہتا ہے آپ کے ہیرو بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کی اپروچ ٹھیک تھی کہ ٹیم کو ایک سخت ڈسپلن میں رکھنا چائیے اور کھلاڑیوں کو زرا ڈرا کر رکھیں تاکہ وہ پرفارمنس پر توجہ دیں لہذا وہ ٹیم کو حوصلہ افزائی اور سخت ڈسپلن کی وجہ سے ورلڈ کپ جتوانے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ گروپنگ اور یار دوستی ہر دور میں موجود تھی لیکن پھر 1990 کی دہائی میں اوسط درجے کے بیک گراونڈ سے آئے کھلاڑیوں کو جوئے کی لت پڑ گئی جو بڑے بڑے کھلاڑیوں کا مستقبل کھا گئی۔ ایزی پیسے کی سوچ نے جہاں ان کی سیلف ریسپکیٹ ختم کر دی تھی وہیں وہ ٹیم کے ساتھ ساتھ خود کو بھی ڈبو بیٹھے۔ یوں جو ہمارا ٹیلنٹ تھا وہ جوئے کی نظر ہوگیا۔ ہر دوسرا کھلاڑی راتوں رات امیر بننا چاہتا تھا۔ کرکٹ جنٹلمین کھیل ان کے نزدیک نہیں تھا۔ ممکن ہے بہت سارے کھلاڑیوں نے یہ انگریزی کا لفظ تک نہیں پڑھا ہوگا کہ یہ جنٹیلمین گیم ہے۔
ربیعہ کہنے لگی پھر بھی دیکھیں ناں۔۔۔۔
میں نے کہا ایک بات تو بتائیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک میں باقی تو سب کچھ ٹھیک نہ ہو لیکن کرکٹ کے گیارہ کھلاڑی اعلی پرفارم کریں۔ ؟
یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ کے ملک کی گورنس، عدالتیں، میڈیا، سول ملٹری بیوروکریسی، ادادے یا عام لوگ اپنی زندگیوں میں پرفارم نہ کررہے ہوں لیکن گیارہ کھلاڑی ٹاپ پر ہوں؟ جب زوال پورے معاشرے پر آیا ہوا ہو تو سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ جب معاشی یا سیاسی طور پر آپ تباہ ہوں تو پھر محض گیارہ کھلاڑی آپ کو میچز نہیں جتوا سکتے تاکہ آپ خود پر فخر کر سکیں۔ کیا کرکٹ کے علاوہ کوئی اورشعبہ ہے جسے عالمی سطح پر کامیابی ملی ہو؟
ربیعہ کہنے لگی پھر کیا ہوگا؟ میں نے ہاکی کی طرح دھیرے دھیرے یہ کھیل بھی شاید زوال کا شکار ہوتا جائے کیونکہ ہم جدید کرکٹ نہیں کھیل رہے جیسے جدید ہاکی نہیں سیکھی یا کھیلی۔ شاید اگلے ورلڈ کپ تک ہم کوالیفائی بھی نہ کرسکیں۔ کبھی ہم ہاکی کے عالمی چمپئن تھے۔ آج ہمارے میدانوں سے ایسے غائب ہوئی کہ کوئی اس کا ذکر تک نہیں کرتا نہ آج کسی کھلاڑی کا نام یاد ہے—

کرکٹ ہار پر افسردہ کیوں” ایک تبصرہ

  1. Wow, awesome blog layout! How long have you been blogging for? you made running a blog look easy. The total glance of your web site is excellent, let alone the content! You can see similar here najlepszy sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں