یوم غدیر کیا ہے؟

التهذيب ،۱/۹/۲۴/۶ محمد بن أحمد بن داود عن أبي علي أحمد بن محمد بن عمار الكوفي عن أبيه عن التيملي عن ابن زرارة عن البزنطي قَالَ: كُنَّا عِنْدَ اَلرِّضَا عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ اَلْمَجْلِسُ غَاصُّ بِأَهْلِهِ فَتَذَاكَرُوا يَوْمَ اَلْغَدِيرِ فَأَنْكَرَهُ بَعْضُ اَلنَّاسِ فَقَالَ اَلرِّضَا عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ إِنَّ يَوْمَ اَلْغَدِيرِ فِي اَلسَّمَاءِ أَشْهَرُ مِنْهُ فِي اَلْأَرْضِ إِنَّ لِلَّهِ فِي اَلْفِرْدَوْسِ اَلْأَعْلَى قَصْراً لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَ لَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ مِائَةُ أَلْفِ قُبَّةٍ مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ وَ مِائَةُ أَلْفِ خَيْمَةٍ مِنْ يَاقُوتٍ أَخْضَرَ تُرَابُهُ اَلْمِسْكُ وَ اَلْعَنْبَرُ فِيهِ أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهَرٌ مِنْ خَمْرٍ وَ نَهَرٌ مِنْ مٰاءٍ وَ نَهَرٌ مِنْ لَبَنٍ وَ نَهَرٌ مِنْ عَسَلٍ وَ حَوَالَيْهِ أَشْجَارُ جَمِيعِ اَلْفَوَاكِهِ عَلَيْهِ طُيُورٌ أَبْدَانُهَا مِنْ لُؤْلُؤٍ وَ أَجْنِحَتُهَا مِنْ يَاقُوتٍ تَصُوتُ بِأَلْوَانِ اَلْأَصْوَاتِ إِذَا كَانَ يَوْمُ اَلْغَدِيرِ وَرَدَ إِلَى ذَلِكَ اَلْقَصْرِ أَهْلُ اَلسَّمَاوَاتِ يُسَبِّحُونَ اَللَّهَ وَ يُقَدِّسُونَهُ وَ يُهَلِّلُونَهُ فَتَطَايَرُ تِلْكَ اَلطُّيُورُ فَتَقَعُ فِي ذَلِكَ اَلْمَاءِ وَ تَتَمَرَّغُ عَلَى ذَلِكَ اَلْمِسْكِ وَ اَلْعَنْبَرِ فَإِذَا اِجْتَمَعَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ طَارَتْ فَتَنْفُضُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَ إِنَّهُمْ فِي ذَلِكَ اَلْيَوْمِ لَيَتَهَادَوْنَ نُثَارَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا اَلسَّلاَمُ فَإِذَا كَانَ آخِرُ ذَلِكَ اَلْيَوْمِ نُودُوا اِنْصَرِفُوا إِلَى مَرَاتِبِكُمْ فَقَدْ أَمِنْتُمْ مِنَ اَلْخَطَإِ وَ اَلزَّلَلِ إِلَى قَابِلٍ فِي مِثْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ تَكْرِمَةً لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ ثُمَّ قَالَ يَا اِبْنَ أَبِي نَصْرٍ أَيْنَ مَا كُنْتَ فَاحْضُرْ يَوْمَ اَلْغَدِيرِ عِنْدَ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَإِنَّ اَللَّهَ يَغْفِرُ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ ذُنُوبَ سِتِّينَ سَنَةً وَ يُعْتِقُ مِنَ اَلنَّارِ ضِعْفَ مَا أَعْتَقَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَيْلَةِ اَلْقَدْرِ وَ لَيْلَةِ اَلْفِطْرِ وَ اَلدِّرْهَمُ فِيهِ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ لِإِخْوَانِكَ اَلْعَارِفِينَ فَأَفْضِلْ عَلَى إِخْوَانِكَ فِي هَذَا اَلْيَوْمِ وَ سُرَّ فِيهِ كُلَّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ ثُمَّ قَالَ يَا أَهْلَ اَلْكُوفَةِ لَقَدْ أُعْطِيتُمْ خَيْراً كَثِيراً وَ إِنَّكُمْ لَمِمَّنِ اِمْتَحَنَ اَللَّهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ مُسْتَقَلُّونَ مَقْهُورُونَ مُمْتَحَنُونَ يُصَبُّ عَلَيْكُمُ اَلْبَلاَءُ صَبّاً ثُمَّ يَكْشِفُهُ كَاشِفُ اَلْكَرْبِ اَلْعَظِيمِ وَ اَللَّهِ لَوْ عَرَفَ اَلنَّاسُ فَضْلَ هَذَا اَلْيَوْمِ بِحَقِيقَتِهِ لَصَافَحَتْهُمُ اَلْمَلاَئِكَةُ فِي كُلِّ يَوْمٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ وَ لَوْ لاَ أَنِّي أَكْرَهُ اَلتَّطْوِيلَ لَذَكَرْتُ مِنْ فَضْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ وَ مَا أَعْطَى اَللَّهُ فِيهِ مَنْ عَرَفَهُ مَا لاَ يُحْصَى بِعَدَدٍ .

(بسند معتبر) البزنطی سے روایت ہے کہ ہم حضرت امام علی رضاؑ کی خدمت میں حاضر تھے جبکہ محفل لوگوں سے چھلک رہی تھی۔ پس لوگوں نے عید غدیر کا تذکرہ کیا تو بعض لوگوں نے اس کا انکار کر دیا جس پر حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: مجھ سے میرے بابا جانؑ نے بیان فرمایا اور انہوں نے اپنے بابا جانؑ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: غدیر کا دن باقی دنوں کی نسبت آسمان میں زیادہ مشہور ہے۔ خداوند عالم کا فردوس اعلیٰ میں ایک قصر ہے جس کی ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی جس میں سبز یاقوت کے ہزار قبے ہیں، جس میں زرد یاقوت کے ایک لاکھ خیمے ہیں، جس کی مٹی مشک اور عنبر ہے، اس میں چار نہریں ہیں: ایک نہر شراب کی، ایک نہر پانی کی، ایک نہر دودھ کی اور ایک نہر شہد کی ہے۔ اس کے اردگرد ہمہ قسم میووں کے درخت ہیں جن کے اوپر پرندے ہیں جن کے بدن لولو کے ہیں اور پر یاقوت کے ہیں اور ان کی رنگ برنگی بولیاں ہیں۔ جب غدیر کا دن اس محل پر وارد ہوتا ہے تو اہل آسمان اللہ کی تسبیح و تقدیس و تہلیل کرتے ہیں، پرندے اڑتے ہیں پس اس پانی میں گر جاتے ہیں اور اس مشک اور عنبر پر گھومتے پھرتے ہیں پس جب ملائکہ جمع ہو جاتے ہیں تو یہ پرواز کرتے ہیں اور یہ ان پر بہایا جاتا ہے اور وہ اس دن جناب فاطمہؑ پر ہدئیے نثار کرتے ہیں اور جب دن کا آخری پہر آتا ہے تو وہ ندا دے کر اپنے مراتب کی طرف چلے جاتے ہیں پس تمہیں خطاوں سے امان ملتی ہے اور اس دن کے مثل آئندہ کوئی دن حضرات محمدؐ و علیؑ کی تکریم کا نہیں ہوتا۔
اے ابو نصر کے بیٹے ! تم جہاں بھی ہو ہر حالت میں حضرت امیرؑ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ کیونکہ خداوند عالم ( اس دن ) ہر مؤمن ومؤمنہ اور مسلم و مسلمہ کے ستر سال کے گناہ معاف کرتا ہے اور اس سے دو گنا افراد کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جس قدر ماہ رمضان میں اور لیلتہ القدر اور شب عید الفطر میں آزاد کرتا ہے اور تمہارا اس دن اپنے صاحبان معرفت بھائیوں پر ایک درہم خرچ کرنا ایک ہزار درہم کے برابر ہے۔ پس تم اس دن اپنے (ایمانی) بھائیوں پر مہربانی کرو اور ہر مؤمن اور مومنہ کو شاد کرو۔ پھر فرمایا: اے اہل کوفہ! تمہیں خیر کثیر عطاء کی گئی ہے اور تم ان اہل ایمان میں سے ہو جن کے دلوں کا خدا نے ایمان کے لیے امتحان لے لیا ہے۔ تم کو کم سمجھا جائے گا، تم پر جبر و جور کیا جائے گا اور تم پر بلاء و مصیبت انڈیلی جائے گی یا پھر عظیم رنج و غم کا دور کرنے والا (خدا) اسے دور کرے گا۔ بخدا اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت معلوم ہوتی ہے تو ان سے ہر روز دس بار فرشتے مصافحہ کرتے اور اگر میں طوالت کو نا پسند نہ کرتا تو اس دن کی مزید فضیلت اور جو کچھ خدا اس کی معرفت رکھنے والے کو عطا کرتا ہے جس کی تعداد گنی نہیں جاسکتی وہ سب کچھ بیان کرتا۔ علی ابن حسن بن فضال بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن عبد اللہ نے بیان کیا ہے کہ میں اور حسن بن جہم (دونوں مل کر) احمد بن محمد (البزنطی ) کے پاس پچاس سے زائد بار گئے ہیں اور (ہر دفعہ) ان سے یہ حدیث سنی ہے۔

الوافی للکاشانی (مترجم) ح 14457

اپنا تبصرہ بھیجیں