اجل مسمیٰ کیا ہے؟

سورۃ الانعام ۔1،2
ترجمہ آیات ۔ 1،2
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی جو کافر ہیں وہ دوسروں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ ۔ وہ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر (زندگی کی) ایک مدت مقرر کی اور ایک مقررہ مدت اور بھی ہے جو اسی کے پاس ہے پھر بھی تم شک کرتے ہو۔ ۔
🍁تفسیر آیات 🍁
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اجل مسمیٰ“ اور”اجلا “ آیت میں دو الگ الگ معنی کے لئے ہیں اور یہ جو بعض نے دونوں کو ایک ہی معنی میں لیا ہے تو یہ لفظ ”اجل“ کے تکرار کے ساتھ ، خصوصا دوسری مرتبہ ”مسمی“ کے ہوتے ہوئے کسی طرح بھی درست نہیں ہے ۔اسی لئے مفسرین نے ان م دونوں کے فرق کے بارے میں کتنی بحثیں کیں ہیں لیکن جو کچھ قرآن کریم کی دوسری تمام آیت کے قرینہ سے اور اسی ان روایات سے جو اہل بیت پیغمبر کے وسیلہ سے ہم تک پہنچی ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا فرق اس بات میں ہے ”اجل“ اکیلا ہو تو یہ غیر حتمی عمر ، مدت اور وقت کے معنی میں ہوتا ہے اور ”اجل مسمی“ حتمی عمر اور معین مدت کے معنی میں ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں ”اجل مسمی“ طبیعی موت کو کہتے ہیں اور ”اجل“ وقت سے پہلے آنے والی موت ہے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ بہت سی موجودات اپنی طبعی و فطری ساخت اور ذاتی استعداد و قابلیت کے مطابق ایک طولانی مدت تک باقی رہ سکتی ہے لیکن یہ بات بھی ممکن ہے کہ اس مدت کے دوران کچھ ایسی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں جو انھیں ان کی آخری عمر طبیعی تک نہ پہنچنے دے، مثلا ایک تیل سے جلنے والا چراغ ، اس کے تیل کی مقدار کے پیش نظر ممکن ہے کہ بیس گھنٹے روشنی دینے کی استعداد رکھتا ہو، لیکن ایک آندھی کا جھونکا یا بارش کا چھینٹا اس کی عمر گھٹا سکتا ہے۔ اس کی نگہداشت نہ کرنا اس کی کوتاہ عمری کا سبب بن جائے گا ۔ اگر چراغ کو کسی ایسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو اور تیل کے آخری قطرے تک جلتا ہوا خاموش ہو جائے تو وہ اپنی حتمی اجل کو پہنچ گیا ہے اور اگر اس سے پہلے ہی کچھ رکاوٹیں چراغ کی خاموشی کا سبب بن جائےں تو اس کی عمر کی مدت ”اجل غیر حتمی“ کہیں گے ۔

ایک انسان کے بارے میں بھی معاملہ اسی طرح ہے، اگر اس کی بقا کے لئے تمام شرائط جمع ہوں اور موانع بر طرف ہوں تو اس کی ساخت اور استعداد اس بات کی مقتضی ہو گی کہ وہ ایک طولانی مدت تک زندگی بسر کرے، اگر چہ اس مدت میں آخرکار ختم ہو جانا ہے اور اس کی ایک حد ضرور ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ غذا کی بد پرہیزی کے اثر سے یا مختلف چیزوں کی عادت میں مبتلا ہونے یا خودکشی کرنے یا کچھ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اس مدت سے بہت پہلے ہی مر جائے موت کی کی پہلی صورت کو ”اجل مسمی“ اور دوسری صورت کو اجل غیر حتمی کہتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں حتمی اجل اس صورت میں ہے جب ہم تمام علل اسباب پر نظر رکھیں اور اجل غیر حتمی اس صورت میں ہے جب صرف مقتضیات کی طرف دیکھیں، ان دونوں طرح کے اجل کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سے مطالب واضح ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ صلہ رحمی عمر کو زیادہ اور قطع رحمی عمر کو کم کردیتی ہے ( یہاں عمر اور اجل سے مراد غیر حتمی اجل مراد ہے ) ۔
ایک آیت میں ہے کہ:”فَاِذَا جَاءَ اَجَلہُم لَایَسْتَاٴخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُون“۔ جب ان کی(موت) اجل آتی ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہوسکتی ہے اور نہ آگے (1) ۔اس بنا پر یہ آیت اس موقع سے مربوط ہے جب انسان اپنی آخری عمر کو پہنچ گیا ہو لیکن وہ موتیں جو قبل از وقت واقع ہو جائیں ان پر اس آیت کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔اور ہر صورت میں اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ دونوں اجلیں خدا ہی کی طرف سے معین ہوتی ہیں، ایک مطلق طور پر اور دوسری مشروط اور معلق طریقہ سے، بالکل اسی طرح جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ چراغ بیس گھنٹوں کے بعد بلا شرط خاموش ہو جائے گا، اور یہ بھی ہم کہہ دیتے ہیں کہ اگر آندھی چل پڑی تو دو ہی گھنٹوں کے بعد بجھ جائے گا، یہ بات انسان ، قوموں اور ملتوں کے بارے میں بھی اسی طرح ہے، ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص یا فلاں قوم،فلاں مقدار عمر کے کے بعد قطعی و یقینی طور پر ختم ہو جائی گی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ ظلم وستم ،نفاق واختلاف اور سہل انگاری و سستی اختیار کریں گے تو اس مدت کے ایک تہائی حصہ میں ہی ختم ہو جائے گی، دونوں اجلیں خدا کی طرف سے ہیں ایک مطلق ہے اور دوسری مشروط۔ امام صادق علیہ السلام سے اوپر والی آیت کے ذیل میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا: ”ھمااجلان ،اجل محتوم واجل موقوف“
یہ دو قسم کی اجلوں کی طرف اشارہ ہے، اجل حتمی اور اجل مشروط۔
دوسری احادیث میں جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں اس بات کی تصریح ہو گئی ہے کہ اجل غیر حتمی (مشروط) آگے پیچھے ہو سکتی ہے لیکن اجل حتمی قابل تغیر نہیں ہے (۲) ۔
📚 تفسیر نمونہ
📚۱۔ اعراف ،۳۶۔
📚۲نورالثقلین،جلد۱ ، صفحہ ۵۰۴۔
التماس دعا🤲

اپنا تبصرہ بھیجیں