ترک انتخابات اور ہمارے انتخابات

صدر رجب طیب اردوان اپنی زندگی کے مشکل ترین انتخابی معرکےکی جانب بڑھ رہے ہیں ۔وہ دو عشروں سے ترکیہ میں حکومت کر رہے ہیں اور ان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کے خلاف کی گئی فوجی بغاوت کو عوام نے بندوق پر حوصلےکی کامیابی بنا دیا تھا ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان کے مقابلے میںچھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کلچدار اولو بھی بہت پراعتماد ہیں۔ ان کےچھ جماعتی اتحاد کا نام نیشن الائنس ہےمگر اس کو ٹیبل آف سکس بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ اس اتحاد میں چھ مختلف نظریات کی حامل جماعتیں اکھٹی ہیں اور طیب اردوان اور ان کی جسٹس پارٹی ( اے کے پی ) کے دور حکومت کوختم کرناچاہتی ہیں ۔ دار اولو خود تو سی پی ایچ کے لیڈرہیں جو سوشل ڈیموکریسی اور قوم پرستی کی بات کرتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ طیب اردوان کی جسٹس پارٹی سے منحرف اراکین کی جماعتیں علی بابا کان اور اور دائود اولو کی قیادت بھی ہے ۔ گڈ پارٹی دائیں بازو کی سخت قوم پرستی کی حامل ہے جبکہ فیلیسٹی پارٹی سخت قدامت پرست اور مذہبی نظریات کی حامل ہے ۔ ٹیبل آف سکس نے اپنے منشور میں سیاسی طور پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ صدر اردوان کی جانب سے قائم کردہ موثر ایوانِ صدارت کو تبدیل کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کو دوبارہ سے مضبوط کریں گے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بیس سالہ اقتدار کے باوجود صدر اردوان آج بھی ترکوں کی پسندیدہ شخصیت ہیںاور انہیں وسیع پیمانے پرعوامی حمایت حاصل ہے۔ ترکی کے حالیہ ہولناک زلزلے نے مگر انکی مشکلات میں کافی اضافہ کردیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ زلزلہ متاثرین کی مکمل بحالی اتنے کم عرصے میں ممکن ہی نہیں اور یہی وہ علاقے ہیںجو اردوان کے مضبوط گڑھ ہیں۔ سپریم الیکشن کونسل ترکی کے اندازے کے مطابق ان علاقوں کے 10لاکھ افراد حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکیں گے ۔ اس زلزلے کا معیشت کو پٹخ دینا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس وقت انہی علاقوںمیں مہنگائی 85فیصد تک جا پہنچی ہے ان حالات میں ان علاقوں سے ریکارڈ ووٹ کی توقع عبث ہے،جواردوان کیلئے اپ سیٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی ہارے کوئی جیتے تمام سیاسی رہنما مقابلے میں تو ہیں کسی کو عدالتوں کے ذریعے باہر تو نہیں کیا گیا ہے ۔ مگر وطن عزیز میں اس طریقہ کار نے تباہی مچارکھی ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انگریز کی پروردہ اشرافیہ کو رائے عامہ کی پسندیدگی ہضم نہیں ہو رہی کہ اتنی جوہری نوعیت کی تبدیلی کیسے وجود پا گئی۔اس جوہری نوعیت کی تبدیلی کا نام نواز شریف ہے جس نے سارا سیاسی ڈھانچہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ نواز شریف اس اشرافیہ سے جو انگریز کی پروردہ تھی تعلق نہیں رکھتے ۔ اب ایسے شخص کے گرد سیاست کا گردش کرنا اس اشرافیہ کیلئے ناقابل برداشت تھا اور ہے۔ یہ نواز شریف کی سیاست کو ختم کرنے کی سازش کرنے والی جتنی آڈیوز آ رہی ہیں اگر آپ ان افراد کا فارنزک کریں تو یہ حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی کہ یہ تمام افراد وہی ہیں جو اس اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور گمان کرتے تھے کہ اب تخت پر ہم ہونگے مگر ہوا یہ کہ تخت پر عوام نے نوازشریف کو براجمان کردیا ۔ اس طبقے نے نگران حکومت ،جنرل مشرف، عمران خان وغیرہ کے ساتھ مل کر اپنی ہر کوشش کر لی کہ نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کر دیا جائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ان کو یہ یقین تھا اور ہے کہ وہ اپنا کھویا ہوا تاج و تخت دوبارہ حاصل کر لیں گے ۔ میں کوئی لفاظی میں تاج و تخت کا لفظ استعمال نہیں کر رہابلکہ وہ اپنے آپ کو پیدائشی حکمران جبکہ عوام کو رعایا گردانتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال مگر یہ ہے کہ نواز شریف جس کو ٹکٹ دے دے عوام کا ایک جم غفیر اس کے ساتھ چلنا شروع ہوجائےگا۔ اسی اشرافیہ کی سوچ نے جولائی 2017 کا فیصلہ دلوایا کہ جس کی وجہ سے وطن عزیز کی چولیں ابھی تک ہل رہی ہیں اور نہ جانے کب تک هہلتی رہیں گی ۔ کیونکہ وہ اقدام اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کیا گیا تھا لہٰذا اس کا علاج بھی اعلیٰ عدلیہ کو ہی کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس کو اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ نواز شریف کے حوالےسے کوئی ریفرنس دائر ہوتو پھراعلیٰ عدلیہ ثاقب نثارکے لگائے گئے زخم بھرے۔ اگر ملک میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد درکار ہے اور جمہوری اقدار کی پامالی کو قصہ پارینہ بنانا ہے تو پھردو ہزار دو ، دو ہزار آٹھ اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اختیار کی گئی پریکٹس کو ترک کر کے نواز شریف کو سیاسی میدان میں مکمل طور پر اترنے دینا ہوگا ورنہ عام انتخابات چاہے اس سال منعقد ہو ںیا آئین میں دی گئی گنجائش کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں اپنی مدت کو بڑھالیں، ان انتخابات کی ساکھ بس راکھ ہوگی ۔ میں جولائی دو ہزار انیس میں امریکہ میں تھا تو وہاں سے اپنے کالم میں گزارش کی تھی کہ اس خطے میں بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے اور امریکہ کے ایوانوں میں اس کی زبردست بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ عمران خان حکومت کے خاتمے تک تواتر سے لکھتا رہا کہ کشمیر میں جو کچھ ہوا ہے اس میں عمران حکومت کی رضامندی شامل ہے۔سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں کون کیا کیا گل کھلا رہا تھا ۔ مگر اب اس غیرمعمولی سانحہ کو صرف جنرل باجوہ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور عمران خان کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان اگردوبارہ کسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اقتدار میں آگئے تو ہمیں ان سے فوائد سمیٹنے میں دشواریاں نہ آئیں ۔ کم ازکم اس حوالے سے صحافیوں کو تو سچ بولنا چاہئے کیونکہ آدھا سچ جھوٹ بولنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔نوٹ : کراچی والے اپنی مردم شماری پر رو رہے ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ لاہور کے بیشتر علاقوں میں بھی مردم شماری کیلئےکوئی نہ آیا ۔ کیا پنجاب کی نشستیں بھی کم کرنی ہیں ۔ اس صورت حال کا نوٹس لیا جاناچاہئے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں