توشہ خانہ

توشہ خانہ فارسی زبان سے مستعار لیا گیا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’’خزانہ‘‘۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مخصوص کمرہ یا جگہ ہے جہاں دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف رکھے جاتے ہیں۔ اداروں کے سربراہان یا دیگر عہدیداروں کو ملنے والے تحائف کچھ زیادہ قیمتی نہیں ہوتے۔ تاہم سربراہانِ مملکت اور وزراء اعظم کو نہایت قیمتی تحائف ملتے ہیں۔ عرب ممالک سے ہمارے وزرائےاعظم کو خاص طور پرنہایت قیمتی اور نادر تحائف ملتے ہیں۔ یہ تحائف چونکہان کی سرکاری حیثیت یا عہدہ کے باعث ملتے ہیں لہٰذا یہ تحفے وزیراعظم کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اسی دلیل کے تحت تمام تحائف توشہ خانے میں جمع کرائے جاتے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام ممالک نے کم و بیش یہی طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی توشہ خانہ ہی ایسے تحائف کا اصل ٹھکانہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ مغل دور میں بھی توشہ خانہ موجود ہونے کے شواہد ملتے ہیں مگر بادشاہت میں نہ تو آج کل جیسی اپوزیشن ہوتی تھی جو تحائف چوری ہونے کا شور مچاتی اور نہ ہی سوشل میڈیا تھا کہ اندر کی بات باہر آتی۔ اب صورت حال بالکل مختلف ہے کوئی چیز چُھپی نہیں رہتی۔ سیاسی مخالفت کی حالت یہ ہے کہ بس ایک دوسرے پر چوری کا الزام لگائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ حکومتی اثر ورسوخ کے باعث تحائف یونہی اُچک لیے جائیں۔ حکومت پاکستان کی کیبنٹ ڈویژن نے اس سلسلے میں واضح قانون سازی کر رکھی ہے۔ تحائف کو حاصل کرنے، توشہ خانے میں جمع کرانے اور پھر انہیں خریدنے کا باقاعدہ طریقہ کار وضع کررکھا ہے اس سلسلے میں آخری خط 18 دسمبر 2018 کو جاری ہوا جس کے مطابق تمام حکومتی/ سرکاری عہدیداران کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تحائف کی فوری طور پر اطلاع کریں اور توشہ خانہ میں جمع کرائیں۔ کیبنٹ ڈویژن FBR اور پرائیویٹ ماہرین کے ذریعے ان تحائف کا تخمینہ لگوائے گی۔ اگر دونوں ماہرین کے تخمینے میں فرق بہت نمایاں یعنی 25 فیصد سے بھی زیادہ ہو تو ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ تاہم کسی بھی صورت میں تحفے کی قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ اسی خط میں یہ طریقۂ کار بھی وضع کیا گیا ہے کہ وصول کنندہ کس طرح توشہ خانہ سے تحفہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے حاصل کرسکتا ہے۔ یہ طے کیا گیا ہے کہ 30 ہزار مالیت کا تحفہ وصول کنندہ مفت رکھ سکتا ہے تاہم 30 ہزار سے زیادہ مالیت کے تحائف کل قیمت کا پچاس فیصد ادا کر کے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ Antique اور تاریخی نوعیت کے یادگار تحائف پر پچاس فیصد والی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ ایسے تحائف نمایاں سرکاری عمارتوں پر سجائے جائیں گے۔ دیکھا جائے تو اس چارصفحاتی خط میں طریقہ کار مکمل طور پر وضع کر دیا گیا ہے مگر حالیہ توشہ خانی بحث نے ان قواعد و ضوابط پر مزید تعمق پر مجبور کردیا ہے لہٰذا کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جلد ہی اس سلسلے میں نئی پالیسی جاری کر دی جائے گی۔ میرا خیال ہے توشہ خانے کا معاملہ قانونی نوعیت کا تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ اخلاقی بھی ہے اور انسانی فطرت سے متعلق بھی! طریقۂ کار تو حکومت پاکستان کی کیبنٹ ڈویژن طے کرتی ہے۔ اس طریقہ کار کو من و عن اختیار کیا جائے تو سب ٹھیک ہے۔ قانون میں اگر یہ طے ہے کہ کل قیمت کا پچاس فیصد ادا کرکے تحفہ ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے تو ٹھیک ہے۔ پچاس فیصد ادائیگی کے بعد خریدار تحفے کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔ مثلاً قیمتی گاڑی گیراج میں کھڑی رکھے، سڑکوں پر چلائے، خود چلائے یا کسی کو دیدے۔ اگر چاہے تو پچاس فیصد پر حاصل کرکے سو فیصد پر بیچ دے اور پچاس فیصد منافع جیب میں ڈال لے۔ وہ جو چاہے کرے قانونی طور پر اسے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں ہم اس عمل کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک تحفہ حاصل کرکے استعمال کرنا اور دوسرا ہے تحفے کا بیچنا۔ توشہ خانہ سے تحفہ خریدنا قانونی عمل ہے جبکہ بیچنا اخلاقی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
معاشرتی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی دوست یا عزیز دیے گئے تحائف خود استعمال کرنے کی بجائے مارکیٹ میں فروخت کر دے تو دینے والا دوست یا عزیز اس بات کو نہایت برا اور اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اب اس کا اطلاق جب ہم تحائف دینے والے سربراہان حکومت و مملکت پر کریں گے تو بات سمجھ میں آ جائے گی کہ وہ اسے کیسا محسوس کرتے ہوں گے اور اس سے ملک و قوم کی کتنی سبکی ہوتی ہوگی۔ تیسرا پہلو انسانی فطرت کا ہے۔ وزیراعظم ہو صدر یا کوئی عام عہدے دار مگر ہے تو فطرت کے ہاتھوں مجبور! اگر کوئی شخص اقتدار میں بھی ہو اور قیمتی تحائف توشہ خانہ میں پڑے اسکی آنکھوں کو خیرہ بھی کر رہے ہوں مگر وہ انہیں چھو تک نہ سکے، مثلاً ہیروں کا ہار ہو آپ وزیراعظم بھی ہوں اور اسے خاتون اول کے گلے کی زینت نہ بنا سکیں تو بتائیے ایسے اقتدار اور تحفے کا کیا فائدہ ؟ ذرا سوچیں کہ اگر کسی وزیراعظم کو اُس کے عرصۂ اقتدار میں ملنے والے تحائف واقعتاً دے ہی دیے جائیں تو کیا حرج ہے ؟ ایسا کرنے سے حرص و ہوس اور غبن وغیرہ کے امکانات سرے سے ختم ہوجائیں گے۔ جو شخص وزیراعظم کے عہدے تک پہنچتا ہے تو اس میں کچھ اُسکا بھی تو کمال اور جدوجہد ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ کھربوں روپے کا بجٹ رکھنے والی ریاست اگر دس، بیس یا پچاس فیصد حاصل بھی کر لے گی تو کیا حاصل کر لے گی۔ لہٰذا ہم انسانی فطرت، جو کہ ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی متحرک ہوتی ہے، کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرکے برائی اور الزامات کا دروازہ بند کر سکتے ہیں۔ مسئلے کا ایک اور حل یہ ہو سکتا ہے کہ تحائف بس قومی اثاثہ ہیں انہیں وقتافوقتا آکشن کے ذریعے بیچا جائے۔ تمام تحائف کی معلومات پبلک ہوں۔ نیلامی میں عام و خاص سب حصہ لیں جو بڑھ چڑھ کے بولی لگائے وہ لے جائے۔ خیر یہ تو محض تجاویز ہیں نئی پالیسی آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ تاہم میری صرف یہ خواہش ہے کہ سیاستدان باہم الزامات میں اس حد تک آگے نہ نکل جائیں کہ جس میں ملک و قوم کی خجالت کا پہلو نکلتا ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ توشہ خانہ سے فلاں گھڑی لے گیا، فلاں ہار لے گیا فلاں گاڑی لے گیاتو اس سے کوئی ایک شخص ہی بدنام نہیں ہوتا بلکہ اقوامِ عالم میں بحیثیت قوم ہماری بڑی سبکی ہوتی ہے اور سچی بات ہے مجھے اس سے بہت دکھ ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں