لاہور کے تیرہ دروازے

( لاہور کے تیرہ دروازے )، لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔لاہو رپاکستان کے قدیم شہر وں میں سے ایک ہے۔مغلیہ دور میں اس شہر کی تعمیر و ترقی پر قابل دید کام کیئے گئے۔ اس کے علاوہ لاہور شہر میں داخل ہونے کے لئےلاہور کے تیرہ دروازے ہیں۔لاہور کے باسی اسے اندرون شہر بھی کہتے ہیں۔

موچی دروازہ


اس دروازے کا نام اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں ایک ہندو کے نام پر فتح برٹش کے دوران رکھا گیا تھا۔یہ دروازہ توپ کے گولے سے گرا دیا گیا تھا لہٰذا یہ اب وجود نہ رکھتا ہے( لاہور کے تیرہ دروازے )۔

اکبری دروازہ


محمد جلال الدین اکبر کے دور میں قائم کیا گیاجس نے دروازے کا نام اپنے نام پر رکھا۔ چونکہ یہ دروازہ خستہ حال ہونے کے بعد ٹوٹ گیا تھا لہٰذا اب وجود نہ رکھتا ہے۔

شاہ عالمی دروازہ


یہ دروازہ شہنشاہ اورنگزیب کے بیٹے محمد معظم شاہ عالم کے نام پر ہے۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد فرقہ ورانہ فسادات کے دوران اس دروازے کو آگ لگا کر گرا دیا گیا تھا۔علاوہ ازیں اس دروازے کا صرف نام باقی ہے جبکہ دروازہ مکمل مسمار ہو چکا ہے( لاہور کے تیرہ دروازے )۔

دہلی دروازہ


اس دروازے کی سمت چونکہ انڈیا کے شہر دہلی کی طرف ہے اس لئے اسے دہلی دروازے کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔یہ لاہور کا مشہور ترین دروازہ ہے جسے لوگ خاص طور پر شہر میں داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے استعمال کرتے تھے کیونکہ اس گیٹ کے سامنے ایک ریلوے اسٹیشن بھی تعمیر تھا اور اُسی سمت میں دو شہر امرتسر اور جالندھر بھی آباد تھے۔
بہرکیف برٹش راج کے دوران اس دروازے کی پرانی عمارت اکبری کے نام سے وجود رکھتی تھی۔جوں جوں دروازہ خستہ حالت ہوا دروازہ کا راستہ زمین بوس ہوگیا.حتٰٰی کے دروازے میں سے ایک ہاتھی بھی گزر نہ سکتا تھا اس صورت حال سے نکللنے کے لئے پرٹش انتظامیہ نے دروازے کو مسمار کر دیا.اس کے بعد دروازے کی دوبارہ تعمیر کے لئے نگرانی محمد سلطان کے حوالے کر دی ( لاہور کے تیرہ دروازے )لہذا دروازے کی دوبارہ تعمیر بہتر انداز میں کی گئی۔دروازے کے اندر دو منزلہ عمارت ہے جس میں زنانہ سکول قائم ہے جبکہ درمیان میں راہ گزر ہے۔والڈ سٹی آف لاہور نے دروازے کی تزئین و آرائش پر بہت پیشہ ورانہ انداز میں کام کیا ہے

لوہاری دروازہ


اس دروازے کا اصل نام لاہوری دروازہ ہے مگر یہ لوہاری دروازے کے نام سے مشہور ہے۔یہ دروازہ برٹش راج کے دوران تعمیر کیا گیا تھا اور یہ تاحال قائم ہے۔

موری دروازہ


یہ سب سے چھوٹا دروازہ ہے۔یہ دروازہ بھی اب قائم نہیں رہا۔ یہ لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان میں واقع ہے، سکھ دور میں اس دروازے سے شہر کا کوڑہ کرکٹ باہر نکالا جاتا تھا۔

بھاٹی دروازہ


یہ لاہور کےمغرب کی جانب واقع ہے۔یہ دروازہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔مشہور شاعر حاکم شجاعت احمد بھٹی نے دروازے کا موازنہ لندن کی مشہور جگہ چیلسی سے کرتے ہوئے اسے لاہور کے چیلسی کے مترادف گردانا۔اس دروازہ میں بہت سی مشہور شخصیات رہائش پذیر تھیں جن میں شاعر مشرق علامہ اقبال شامل ہیں جنہوں نے کئی برس بھاٹی دروازے میں سکونت اختیار کی۔

ٹیکسالی دروازہ


اس دروازے کا نام بھی اُس دور کے شاہانہ خاندان میں سے کسی کے نام پر رکھا گیا تھا۔جوتوں کی بڑی مارکیٹ اور شاہی محلہ کی وجہ سے یہ دروازہ بہت معروف ہے۔یہ دروازہ بھی اب موقع پر موجود نہ ہے۔

روشنائی دروازہ


رات کے وقت جب لوگ اس دروازے کے اندر داخل ہوا کرتے تھے تو دروازہ رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا اُٹھتا تھا لہٰذا ا سی وجہ سے اس کا نام روشنائی دروازہ رکھا گیا۔تمام دروازوں میں یہ واحد دروازہ جو اپنی اصل حالت میں تاحال قائم ہے۔

مستی دروازہ


یہ دروازہ شاہانہ نوکر کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا نام مستی بلوچ تھا۔یہ دروازہ بھی ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے اب قائم نہ رہا ہے۔

کشمیری دروازہ


اس دروازے کی سمت کشمیر کی طر ف ہے اس لئے کشمیری دروازے کے نام سے مقبول ہے۔یہ دروازہ تاحال وجود رکھتا ہے۔

شیرانوالہ دروازہ


یہ دروازہ راجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کیا تھا۔اس دروازے کی تعمیر کے وقت شیر کے دو پنجرے دروازے کے ارد گرد رکھے گئے تھے اس لئے یہ شیرانوالہ دروازے کے نام سے مشہور ہے۔یہ دروازہ تاحال اچھی حالت میں قائم دائم ہے۔

یکی دروازہ


اس دروازے کا نام شاہی محافظ زکی کے نام پر رکھا گیا تھا جو بعدازاں زکی سے یکی میں تبدیل ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں