ایک نامعلوم قصبے کی کہانی

سب سے پہلے یہ بات ایک بوڑھی عورت نےنوٹ کی ، وہ قصبے کی تجربہ کار دائی تھی ،گزشتہ بیس برس میں اِس چھوٹے سے قصبے میں شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہو جس کی پیدایش میں اُس کا دخل نہ ہو۔پچھلی رات جس عورت کی زچگی اُس نے کروائی تھی یہ اُس کاتیسرا بچہ تھا ،اِس سے پہلے دو بچے بھی اسی کے ہاتھوں پیدا ہوئے تھے اور دونوں ہی پیدایش کے وقت کمزور تھے۔عام حالات میں یہ کوئی ایسی پریشانی کی بات نہ ہوتی مگر دائی کا ماتھا اُس وقت ٹھنکا جب تیسرا بچہ بھی لاغر ہی پیدا ہوا۔اِن کی ماں اچھی خاصی ہٹی کٹی عورت تھی ، گھر میں کھانے پینے کی کمی نہیں تھی،سمجھدار تھی ، حمل کے دوران اُس نے اپنی خوراک کا خاص خیال رکھا تھا ،تیسرے بچے کی پیدایش کے وقت بھی وہ بالکل بھلی چنگی تھی ، چہرے پر نہ کوئی نقاہت اور نہ کام کاج میں تھکاوٹ،ایسی عورت کے ہاں تیسرا بچہ بھی لاغر ہی پیدا ہو تو حیرانی کی بات تھی ۔عموماً وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناتواں بچے صحت مند ہوجاتے ہیں مگر اِس عورت کے پہلے دو بچے اب بھی کمزور ہی تھے۔گو کہ دائی بھی حیران تھی کہ ایسا کیوں کر ہے مگر اُس کی حیرانی آہستہ آہستہ تشویش میں بدل چکی تھی ، وجہ یہ تھی کہ قصبے کا ہر بچہ ہی اب کمزور اور لاغرپیدا ہو رہا تھا۔ قصبے کی کچھ دوسری عورتوں اور اکا دکا مردوں نے بھی اِس رجحان کو نوٹ کیا تھا مگر وہ ابھی پریشان ہونا شروع نہیں ہوئے تھے۔اُن کا خیال تھا کہ شاید قصبے کی عورتیں صحت مند خوراک استعمال نہیں کر رہیں، یہی سوچ کر کچھ لوگوں نے ، جن کی بیویاں امید سے تھیں، انہیں مقوی غذاکا استعمال شروع کروا دیا۔لیکن اِس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔دو ماہ میں قصبے میں چار بچے پیدا ہوئے اور وہ چاروں بھی کمزور تھے۔دائی کی تشویش اُس وقت بڑھ گئی جب اُس نے دیکھا کہ وہ لڑکے جو بالکل صحت مند پیدا ہوئے تھے اور جن کی اب عمریں آٹھ دس سال کے درمیان تھیں، وہ بھی صحت مند نہیں رہے تھے اورچند ہی دنوں میں وہ لاغر دکھائی دینے لگے تھے ۔یہ بات اب دائی کے علاوہ قصبے کے باقی لوگوں نے بھی نوٹ کر لی تھی اور وہ اِس ضمن میں خاصے فکر مندرہنے لگے تھے ۔

اُس چھوٹے سے قصبے میں اسکول بھی تھاجہاں ایک ہی استاد تھا۔اسکول آنے والے بچےبھی ،جو پہلے تندرست و توانا تھے ، اب کمزور ہوچکے تھے۔قصبے والوں کے ساتھ استاد بھی یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر اُس نے ایک اور عجیب و غریب بات بھی نوٹ کی تھی۔اُس نے دیکھا کہ کچھ دنوں سے وہ بچوں کو جوبھی سبق پڑھاتا،بچے وہ بھول جاتے اور اُس کی جگہ کچھ لا یعنی جملے بولنا شروع کردیتے۔شروع شروع میں اسے اِن جملوں کی سمجھ نہیں آئی مگر جب اُس نے غور کیا تو پتا چلا کہ ہر بچہ ایک ہی بولی بول رہا ہے جو سمجھنا تو ممکن نہیں مگر بے معنی الفاظ اور لہجے کا اتار چڑھاؤ بالکل ایک جیسا ہے۔مزید عجیب بات یہ تھی کہ بچے عام گفتگو توٹھیک کرتے تھے مگر جب استاد اُن سے سبق سنانے کے لیے کہتا تو وہ رٹے رٹائے انداز میں لایعنی جملے بولنا شروع کردیتے مگراُن جملوں کا صوتی تاثر ہمیشہ ایک ہی طرح کاہوتا،ایسے لگتا جیسے بہت سے کوّے مل کر کسی دھُن پر گانا گانےکی کوشش کر رہے ہوں۔یہ ایک نئی مصیبت تھی۔استاد نے قصبے کے کچھ جہاندیدہ لوگوں کو اکٹھاکرکے اِس صورتحال کے بارے میں بتایاتو سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے، انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ اِس عفریت سے کیسے نمٹا جائے ۔اِس قسم کے پسماندہ قصبوں میں عموماً ایسی باتوں کا حل جادو ٹونے یا عملیات میں تلاش کیا جاتا ہے سو قصبے والوں نے بھی یہی کیامگر بات نہیں بنی۔

چند ہزار نفوس پر مشتمل یہ قصبہ چونکہ پہاڑی کے دامن میں واقع تھا اِس لیےیہاں سے باہر جانے کے لیے انہیں خاصا طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا ،دوسرا طریقہ یہ تھا کہ پہاڑی کو پار کرکے دوسری جانب اترا جائے ،یہ بھی ایک کٹھن اور صبر آزما کام تھا۔قصبے کے چند لوگ ہی یہ سفر اختیار کرتے تھے اور وہ بھی صرف ضرورت پڑنے پر، اسکول کا استاد انہی چند سمجھدار لوگوں میں شامل تھا۔ وہ اکثر آس پاس کے قصبات میں جایا کرتا تھا،اِن قصبوں میں اسکولوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہاں کے بچے اِس قسم کی ذہنی اور جسمانی بیماری کا شکار بھی نہیں تھے ،وہاں کےنوجوان تنو مند تھے اور عورتیں صحت مند ۔اِس کے برعکس استاد کے اپنے قصبے میں جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا توں توں ذہنی اور جسمانی طور پرلاغر بچوں اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ، یہ نوجوان اپنی روز مرہ زندگی میں بظاہر تو ٹھیک ٹھاک تھے، اُن میں توانائی کی کوئی کمی نہیں تھی، اپنی معمولات زندگی بھی مناسب انداز میں گزار رہے تھے مگر جب انہیں دورہ پڑتا تو وہ اچانک یک زبان ہوکر کوؤں کی طرح کسی انجانی دھُن میں گانا شروع کردیتے ، اِس گانے کے بول سب کو ازبر ہوچکے تھے ، یوں لگتا تھا جیسے انہیں آپس میں اِس بولی کی مکمل سمجھ ہے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسے سر ہلاتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم نے یہ سُر ٹھیک لگایا ہے۔اُن لوگوں کے نزدیک اِس کی حیثیت ایک ترانے جیسی تھی جس کے بول انہیں ازبر تھے مگر مطلب سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

مگر پھر ایک عجیب بات ہوئی ۔ایک دن معمول کی طرح جب ایک نوجوان نے روایتی سُر میں بولی بولنی شروع کی تو اُس کے ساتھ کھڑے ہوئےشخص نے اسے ٹوکا کہ وہ درست الفاظ کا استعمال نہیں کر رہا، نوجوان پہلے تو گڑبڑایا مگر پھر اُس نے دوبارہ کوشش کی ، اِس مرتبہ بھی ساتھ والے شخص نے ٹوکا اور کسی قدر درشت لہجے میں کہا کہ وہ اپنا سبق صحیح طریقے سے یاد رکھنے میں ناکام ہے۔یہ سُن کر نوجوان سٹپٹا گیا اور اُس نے ٹوکنے والے شخص کا گریبان پکڑ لیا، دونوں میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی ، قصبے کے دیگر نوجوان وہاں اکٹھے ہوگئے ، انہیں جب معاملے کاپتا چلا تو انہوں نے بھی نوجوان کو ہی مورد ِ الزام ٹھہرایا کہ اُس نے اپنا سبق سنانے میں کوتاہی کی۔یہ دیکھ کر وہ نوجوان کچھ پریشان سا ہوگیا ، اکٹھا ہونے والوں نے نوجوان کو اُسی بے معنی بولی میں ترانہ پڑھ کر سنایا تاکہ وہ من و عن اِس کی تقلید کر سکے مگر نوجوان باوجود کوشش کے درست طریقے سے ترانے کے بول نہ پڑھ سکا۔قصبے کے نوجوانوں نے وہیں کھڑے کھڑے اُس نوجوان کو غدار قرار دیا اور پھر موقع پر اسے موت کی سزا سنا دی۔چند نوجوانوں نے مل کر اُس کا گلا کاٹا اور سر کو وہیں درخت کے ساتھ لٹکا دیا۔نوجوان کی آخری چیخ بڑی کربناک تھی۔

اب یہ اُس قصبےمیں معمول بن گیا۔آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی شخص ترانہ پڑھنے میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا، چند نوجوان مل کر اسے غلطیاں درست کا موقع دیتے، مگر یہ محض رسمی کاروائی ہوتی ، چند ہی منٹوں میں نوجوانوں کا مشتعل گروہ ترانے کی بے حرمتی کرنے والے کو غدار قرار دےکر اُسے موت کی سزا سنا دیتا۔تاہم غدار کو موت کے گھاٹ اتارنے کا عمل ہر مرتبہ انوکھا اور پہلے سے زیادہ پُر تشدد ہوتا۔آخری مرتبہ جس لڑکے کو انہوں نے ذبح کیا اُس کی غلطی فقط اتنی تھی کہ ترانے کے بول پڑھنے میں اسے کچھ تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے اسے غدار سمجھ لیا گیا۔دو لاغر لڑکوں نے اسے مل کر درخت کے ساتھ باندھا اور پھر تیز دھار چھریوں سے اُس کی کھال اتار دی۔اِس قصبے کی کُل آبادی اب انہی دو نفوس پر مشتمل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں