امیر کبیر بننے کا شرطیہ طریقہ:

بمبئی کے ایک بڑے بینک کا سی ای او CEO اپنے جوتے ہر روز گلی کے کونے پر جوتے پالش والے آدمی سے پالش کرواتا تھا۔ جوتے پالش کرواتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ کر عام طور پر “اکنامک ٹائمز” پڑھتا تھا۔
ایک صبح، پالش والے نے سی ای او سے پوچھا:
“اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟”
۔CEO نے طنز سے پوچھا: “آپ کو اس موضوع میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟”
پالش والے نے جواب دیا: آپ کے بینک میں میرے 200 کروڑ روپے جمع ہیں اور میں اس رقم کا کچھ حصہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کا سوچ رہا ہوں۔
۔CEO نے طنزاً مسکراتے ہوئے کہا: “ہاں ٹھیک ہے! تمہارا نام کیا ہے؟”
پالش والا جواب دیتا ہے: “آصف پالش والا”
اپنے بینک واپس آنے پر، CEO نے اکاؤنٹ مینیجر سے پوچھا:
” کیا ہمارے پاس آصف پالش والا نام کا کوئی صارف ہے؟”
مینیجر نے جواب دیا: “بالکل، وہ ایک معزز صارف ہے! اس کے اکاؤنٹ میں 200 کروڑ روپے ہیں۔” CEO ششدر رہ گیا۔
اگلے دن، جوتے شائن کرواتے ہوئے،CEO نے پالش والے سے کہا:
“مسٹر پولش والا، میں آپ کو اگلے ہفتے ہماری بورڈ میٹنگ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتا ہوں۔ ہم آپکی زندگی کی کہانی سننا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم بہت کچھ سیکھیں گے۔”
اگلے ہفتے، بورڈ کی میٹنگ میں CEO نے بورڈ ممبران سے پالش والے کا تعارف کرایا:
“ہم سب مسٹر آصف پولش والا کو جانتے ہیں، جو ہمارے جوتوں کو بے مثال چمکاتے ہیں لیکن وہ ہمارے قابل قدر کسٹمر بھی ہیں جن کے اکاؤنٹ میں 200 کروڑ روپے ہیں. میں نے انہیں اپنی زندگی کی کہانی بتانے کے لیے مدعو کیا ہے۔ مہربانی کر کے مسٹر پولش والا بتائیں۔”
آصف اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے:
“30 سال قبل ،اپنی جوانی میں، میں نے کیرالہ سے بمبے ہجرت گی۔
بھوک اور تھکن سے مجبور، میں نے کام کی تلاش شروع کی، اچانک، مجھے فٹ پاتھ پر ایک سکہ ملا اور میں نےکچھ سیب خریدے….
میرے پاس دو راستے تھے: اپنی بھوک مٹانے کے لیے سیب کھاؤں یا کوئی کاروبار شروع کروں….
میں نے سیب بیچے اور پیسوں سے مزید سیب خریدے….
اس طرح میں نے پیسہ جمع کرنا شروع کر دیا؛ پھر میں نے استعمال شدہ برش اور جوتوں کی پالش کا ایک سیٹ خرید لیا اور جوتے چمکانے کا کاروبار شروع کیا۔
میں نے کفایت شعاری سے زندگی گزاری، تفریح یا دنیاوی اشیا پر کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا اور ایک ایک روپیہ بچایا۔
کچھ عرصے بعد، میں نے نئے برش، مختلف قسم کی پالشیں اور ایک کرسی خریدی تاکہ میرے کلائنٹ آرام سے بیٹھ سکیں….
میں نے کفایت شعاری سے جینا جاری رکھا اور ہر ممکن بچت کی. پھر، چند سال پہلے، بازار میں چھوٹی سی دوکان خالی ہوئی تو میں نے خرید لی اور کاروبار کو مزید بڑھایا۔
آخرکار، تقریباً تین ماہ قبل میرا چھوٹا بھائی، جو کوچی میں منشیات فروش تھا انتقال کر گیا اور میرے لیے 200 کروڑ روپے چھوڑ گیا😜
یہ صرف مطالعہ کو فروغ دینے کی مہم ہے۔ پڑھنا ذہن اور تخیل کو متحرک کرتا ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں