اداروں میں افراد کی اہمیت

ہماری حالیہ تاریخ میں یہ پروپیگنڈہ عام ہے کہ فی زمانہ افراد کی اہمیت نہیں ہے اداروں کی اہمیت ہے۔ افراد تو آنی جانی چیز ہیں جبکہ ادارے ہمیشہ رہتے ہیں اس لیے ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ قدیمی ادوار میں بادشاہتیں اور ان کی ایمپائرز ہوتی تھیں جن میں شاہ کا فرمان ہی قانون قرار پاتا تھا۔ یوں اداروں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن جب سے ماڈرن نیشنل سٹیٹس یا جدید ریاستوں نے ایمپائرز یا سلطنتوں کی جگہ لی ہے تو شاہی سلطانی کا خاتمہ ہوگیا ہے لیکن ان جدید ریاستوں میں جہاں جہاں فوجی حکومتیں یا سویلین لبادے میں آمریتیں چھائی ہوئی ہیں وہاں آج بھی ویسے ہی شخصی جبر کے نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا سے ہنوز شخصی حکمرانی کا کلی خاتمہ نہیں ہوسکا۔
جدید جمہوری ریاستوں کی یہ عظمت ہے کہ وہاں فرد واحد کی بجائے منتخب پارلیمنٹس کے ذریعے collective public wisdom کو استعمال میں لاتے ہوئے ہر پہلو سے بحث و تمحیص کے بعد نہ صرف قوانین سازی ہوتی ہے بلکہ تمام تر جوہری اجتماعی معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
قدیم ادوار میں قوانین و ضوابط یا دیگر امور زندگی کے فیصلے کسی بھی فرد واحد کی اتھارٹی سے تشکیل پاتے یا وقوع پذیر ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ خلیفہ، سلطان یا حکمران اپنے امراء کی آراء یا مشوروں کو مسترد کرتے ہوئے کوئی بھی اپنا من مانا فیصلہ صادر کردیتا تو سرتابی کی گنجائش نہ ہوتی تھی۔
سچائی اور حقیقت بیانی میں اگر ایک محتاط قدم مزید آگے رکھتے ہوئے حریتِ فکر سے کام لیا جائے تو قدیمی تمام قوانین و ضوابط چاہے ان کی بنیادیں مذہبیت والوہیت پر استوار تھیں یا غیر مذہبی و سیکولر اپروچ کے تحت معرضِ وجود میں آئے۔ ان میں سب سے بڑا اصلی اور حقیقی سقم ہی یہ تھا کہ ان کی بنیادیں فردِ واحد کی فکر رساپر استوار ہوتی تھیں، ایک انسانی ذہن خواہ وہ کتنا ہی قابلیت سے مالا مال یا شارپ ہو وہ collective human wisdom کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ معاملاتِ زندگی کے تمام تر پہلو اس ایک ذہن کی رسائی میں آسکتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر ایک اور کجی بھی ہے کہ ایسے زیادہ تر ضوابط کا شانِ نزول کوئی نہ کوئی ہنگامی حادثہ یا واقعہ بنتا تھا جس کا حل یا انطباق تمام تر عقلی و ماورائی کاوشوں کے باوجود ہنگامی نوعیت ہی کا ہوسکتا تھا جو صدیوں پر محیط ابدی افادیت کی خصوصیات سے قاصر ہی رہنا تھا۔ آج کی اس قدر ترقی یافتہ دنیا میں جب تمام ترذرائع و وسائل اور وسیع research based knowledge کے باوجود مکانی و زمانی تبدیلیوں سے ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جس میں یہ قوانین و ضوابط ناقابلِ عمل ہوکر رہ جائیں۔ ایسے میں رومن لاءز ہوں یا ازمنۂ وسطیٰ کے شخصی ہنگامی یا ماورائی ضوابط کیسے ابدی و دائمی قرارپاسکتے ہیں یہ تو ممالک و اقوام اور ان میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے ساتھ شدید نوعیت کی زیادتی ہوگی۔ ہمارے روشن خیال فقہانے ایک اصول طے کیا تھا کہ حالات بدلنے سے حکم بھی بدل جاتا ہے لیکن بالفعل اس سنہری اصول کو نہ تو پوری طرح عامۃ الناس کو ذہن نشین کروایا گیا اور نہ ہی اسے سوسائٹی میں اپنا یاگیا۔ البتہ سوسائٹی اپنے طور پر بغاوت کرتے ہوئے آگے چلی جائے تو یہ الگ بات ہے۔
بحث یہ ہے کہ شخصی فیصلے خواہ وہ بادشاہوں، خلفاء یا سلاطین کے ادوار کے ہوں یا آج کے جدید جمہوری دور کے، عامۃ الناس کے لیے اٹل قرار نہیں دیے جاسکتے۔ لازم ہے کہ روایتی تقدس کو کارنر کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ سوسائٹی اور میڈیا میں ان پر آزادانہ غیر مشروط کھلا مباحثہ ہونے دیا جائے بلکہ اگر نئے قوانین و ضوابط کی تشکیل مطلوب ہو تو مثبت و منفی ہر دو زاویوں سے ان کا جائزہ ماہرین کی پارلیمانی کمیٹیوں اور مابعد پارلیمنٹ کے اوپن فورم میں کروایا جائے۔
مانا کہ آج کی ادارہ جاتی ریاستوں میں افراد کی شخصی اہمیت کمتر ہوکر رہ گئی ہے لیکن اسی چیز کا دوسرا پہلو یہ ہے یہ افراد ہی ہیں جو اداروں کو تشکیل دیتے ہیں یا ان کو برباد کردیتے ہیں۔ جنرل ایوب ایک بدتر فوجی ڈکٹیٹر تھا اُس نے یہاں دس برس آمریت مسلط کیے رکھی لیکن اس شخص نے یہاں کئی قابلِ قدر اداروں کی بنیادیں استوار کیں۔ زراعت اور انڈسٹری کو بڑھاوا دیا کئی سائنٹیفیک لبرل قوانین دیے اس کے برعکس بھٹو کو یہاں قائدِ عوام کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اس کی پہچان آئین اور جمہوریت کے حوالوں سے کروائی جاتی ہے لیکن اس نے غیر منتخب قومی ادارے کیا ،منتخب اداروں کا بھی کچومر نکال کر رکھ دیا سستی شہرت ، مقبولیت اور اقتدار کو طول دینے کی ہوس میں ایسے ایسے متنازعہ و خوفناک قوانین کو آئین کا حصہ بنادیا جن پر نصف صدی سے قوم نفرت اور خلفشار کا شکار ہے، آگے کی طرف ترقی کیا کرے گی اگلی نصف صدی بھی دوسروں کو کافر کافر کہتے ہوئے دست و گریبان رہے گی جسے شک ہے وہ اپنے آئین کا بھارتی آئین سے موازنہ کرتے ہوئے تقابلی جائزہ لے لے۔ معترضین بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نوع کی کٹ حجتی کرسکتے ہیں کہ آئین و قوانین بہتر بنانے سے کیا فرق پڑ گیا ہے سماجی طور پر سوسائیٹیاں تو ہر دو اطراف ایک جیسی ہی ہیں۔ ایسے سطح بینوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ سوسائیٹیاں جتنی بھی پسماندہ ہوں اگر آئین میں انسانی مساوات اور شہریوں کی برابری کا اہتمام ہو تو وہ کمزور و مظلوم طبقات کا سہارا بنتا ہے بصورت دیگر کمزور طبقات کا ایسی متعصب اور نفرت انگیز سوسائیٹیوں میں بغیر آئینی و قانونی ڈھارس کے جینا محال ہوجاتا ہے۔
نیلسن منڈیلا ایک فرد ہی تھا جس نے جنوبی افریقا کو کیسی برکتیں دیں، امریکا میں کتنے صدور آئے ہیں جارج واشنگٹن ایک فرد ہی تھا جس نے قوم کے سامنے ہاتھ کھڑے کردیے کہ میں مزید اقتدار پر براجمان ہوکر نہیں بیٹھنا چاہتا دوسرے باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں انہیں بھی موقع ملنا چاہیے۔ ابراہم لنکن ایک فرد ہی تھا جس نے نہ صرف اپنے ملک سے بلکہ پوری دنیا سے انسانی غلامی کی زنجیریں کاٹ کررکھ دیں۔ ان کے بالمقابل ہٹلر بھی ایک فرد ہی تھا جس نے مہذب سماج کی چولیں ہلاکررکھ دیں اپنی قوم کے لیے ہی نہیں پورے یورپ کے لیے بھیانک موت کا پیامبر ثابت ہوا۔ قذافی صدام اور بھٹو افراد ہی تھے جو اپنی اقوام کو تہس نہس کرگئے۔
امریکی صدر ٹرمپ ایک فرد ہی تھا جو اتنے متعبر اور باوقار امریکی اداروں میں ایسا گھسا کہ صدیوں کے تسلسل سے آگے بڑھنے والے ادارے اس سے پناہ مانگنے لگے اور جاتے جاتے بھی کانگرس پر حملہ آور ہوگیا۔
ہمارے موجودہ پاکستان میں جناح تھرڈ بھی ایک ایسی ہی مثال ہے صرف یہ اکیلا نہیں ایسے کتنے ہی افراد ہیں جو بظاہر اعلیٰ عدالتی اداروں میں گھسے بیٹحے ہیں لیکن ان معزز اداروں کی تعمیر نہیں تخریب کا باعث بنے ہیں ثاقب نثار، کھوسہ اور گلزار تو کل کی بات ہیں ایسے ہی مزید تین نفوس قدسی ہنوز یہاں براجمان ہیں اور شخصی مفادات کی تباہیاں پھیر رہے ہیں سیاست میں بھی ایسا گھس بیٹھیا جناح تھرڈ تنہا نہیں ایک بیرسٹر بھی اس کی ہمنوائی میں ویسی ہی خرمستیاں کیے جارہا ہے۔ عسکریت میں بھی دو ایسے نہلے پر دہلے رہے ہیں جن کے فیوض و برکات و باجوات سے پوری قوم کا کون سا فرد ہے جو آگاہ نہیں ، کیا ان کو ان کے مضبوط ادارے اعلیٰ انسانی اقدار یا آئینی و جمہوری اطوار سکھلا سکے؟ اس کے بعد یہ کہنا کہ افراد کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا شاید درست نہیں ہے۔

3 تبصرے “اداروں میں افراد کی اہمیت

  1. You’re really a just right webmaster. This web site loading speed is incredible. It sort of feels that you are doing any distinctive trick. Furthermore, the contents are masterwork. you’ve done a wonderful task on this matter! Similar here: sklep internetowy and also here: Dobry sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں