وفا کے پیکر

پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ اس ہر دور میں ایسے رہنما پیدا کیے ہیں جو پھانسی گھاٹ پر جھول گئے مگر پی پی پی قیادت سے عہد وفا قائم رکھا، پنجاب کی دھرتی پر ایسے رہنما پیدا ہوئے جنہوں شہید زولفقار علی بھٹو کے ساتھ علم وفا ایسا تھاما کہ ان کی آنے والی نسل کے خون میں بھی پی پی پی اور لاڑکانہ کے بھٹوز سے یہ وفا رچ بس گئی ہے۔ ان جیالوں نے ہر دور میں مشکلات کا سامنا کیا مگر پی پی پی سے بے وفائی کے بدلے میں جیلیں اور گولیاں قبول کیں، اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی ان سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو ہمیشہ سر کا تاج جانا۔
ایک ایسا ہی نام راجہ پرویز اشرف اسپیکر قومی اسمبلی ہیں، راجہ پرویز آشرف بنیادی طور پر راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے علاقے مندرہ سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا راجہ پرویز آشرف سندھی پنجابی ہیں، ان کا خاندان نہری نظام متعارف ہونے پر سندھ منتقل ہو گیا تھا۔ ان ہی دنوں 1950 میں وہ سانگھڑ میں پیدا ہوئے۔ سال انیس سو ستر میں سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد گجر خان منتقل ہوگئے اور یہیں سے انہوں نے سیاست میں پہلا قدم رکھا، یہ پیپلز پارٹی کے لیے کھٹن اور مشکل دور تھا
جب بڑے بڑے خاندان پی پی پی کو چھوڑ کر الگ ہورہے تھے، لیکن ایسے میں راجہ پرویز اشرف جیسے نوجوان کو اندازہ تھا کہ شہید بھٹو کی جماعت سے بے وفائی کرنے والے بھی ایک دن شہید بھٹو کے مزار پر نوحہ کرتے دکھائی دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا مگر راجہ پرویز آشرف نے ایام جوانی میں ہی پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا تھام کر لاڑکانہ کے بھٹوز کے ساتھ عہد وفا کا سلسلہ قائم کرلیا۔ راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کی سیاست کے حوالے سے وہ 1988 سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
انیس سو نوے، ترانوے اور 97 کے عام انتخابات میں انہیں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدواروں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی یعنی اندازہ لگائیں کی راجہ پرویز اشرف اپنے حلقے میں کتنے مضبوط امیدوار رہے ہیں کہ انھیں شکست دینے کے لیے اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں کا یکجا ہوکر ان کا مقابلہ کرنا پڑا۔ راجہ پرویز اشرف ملکی اور غیر ملکی سیاست کے منظرِ عام پر پہلی مرتبہ سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے سابقہ حلقہ این اے 51 سے کامیابی کے بعد ہوئے۔
پرویز مشرف کی آمریت کو ہمیشہ للکارتے دکھائی دیے، انھوں نے پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی، ایسے میں انھیں پیپلز پارٹی سے توڑنے کے لیے دن رات محنت اور دباؤ ڈالا جاتا رہا لیکن پھر راجہ تو راجہ ہوتا ہے، اور راجہ نے ثابت کیا کہ اس کی رگوں میں دوڑتے خون میں جھکنا یا پھر اپنی جماعت سے دغا کرنا کسی صورت قبول نہیں۔ اس دور میں راجہ پرویز آشرف پر پیپلزپارٹی پارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بن کر مشرف حکومت کا حصہ بننے پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا جاتا رہا نہ صرف دباؤ بلکہ وزارتوں کی بھی پیش کش ہوتی رہی۔
اس حلقے کی عوام کو شاہد ان کی یہ ادا پسند آگئی اور وہ بار بار انھیں ووٹ دیتے آئے ہیں، اسی حلقے سے وہ 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوبارہ اسمبلی میں پہنچ گئے۔ مارچ 2008 کو انھیں سید یوسف رضا گیلانی کا کابینہ میں وفاقی وزیر پانی و بجلی بنا دیا گیا۔ اور ایسے راجہ پرویز اشرف نے پانی و بجلی کی وزارت سنبھالی اس دور میں پاکستان کو بجلی کی شدید کمی کا سامنا تھا، ایسے میں راجہ پرویز آشرف بے سستی بجلی سسٹم میں شامل کرنے کے جو منصوبے بنائے وہ سازش کا نشانہ بن گئے
کیوں کہ اس دور میں اسٹیبلشمنٹ نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کمی لائی جائے لیکن راجہ پرویز اشرف کو سلام پیش کرتے ہیں کہ ان کے دور میں عوام کو سستی بجلی دستیاب تھی، 2 سے چار روپے کا یونٹ ہوتا تھا جو آج 40 روپے کا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کے لگائے گئے منصوبوں سے سستی بجلی مل رہی تھی اور اگر ان منصوبوں کو ترک نہ کیا جاتا تو آج بھی ہمیں سستی بجلی دستیاب ہوتی لیکن یہ منصوبے بھی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ سازش کا نشانہ بن گئے,
2013 کے انتخابات میں پوری کوشش کی گئی کہ راجہ پرویز اشرف کو سیاست سے باہر کیا جائے اور 2018 میں تو ہر طرح کی کوشش کی گئی کہ نہ صرف راجہ پرویز اشرف بلکہ ان کے خاندان کی سیاست بھی ختم کردی جائے اور ان کے خاندان جیتی ہوئی نشستوں کے نتائج بھی تبدیل کیے گئے اس سے پہلے پوری کوشش کی گئی کہ انھیں نااہل قرار دے کر انتخابی سیاست سے ہی باہر کردیا جائے مگر یہ سازشیں کرنے والے آج کسی کو منی دکھانے کی بھی قابل نہیں جبکہ راجہ پرویز آشرف اسپیکر قومی اسمبلی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں