دور ہوتی جمہوریت کی منزل

جس معاشرے میں قانون کی عملداری نہیں ہو گی اس معاشر ے میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ بات اہل فکر و نظر کہتے ہیں کہ قانون کی عملداری سے قوموں کی ترقی اور استحکام کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ قانون کی عملداری جمہوریت اور آزادی سے زیادہ بنیادی چیز ہے۔ قانون کی عملداری کی کوکھ سے ہی امن و امان جنم لیتا ہے اور امن کی حالت میں ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ اگر قوانین کو آئے روز حکمران خواہ وہ جمہوری طور پر منتخب حکمران ہی کیوں نہ ہوں اپنے حق میں تبدیل کرتے ہیں یا حکومت کسی قانون کو نظر انداز کرے اور کسی قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی آواز بلند نہ کرنے دے تو اس طرح جمہوری معاشرہ ایک کھلی سوسائٹی قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ کوئی بھی معاشرہ ہو، کوئی بھی ملک اور کوئی بھی نظام ہو، جب ایک دفعہ قانون وضع کرنے والی مجاز اتھارٹی قانون وضع کر دے تو ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ قانون کی پیروی کرے اور کسی قیمت پر قانون کو نہ توڑے خواہ وہ حکمران جماعت سے تعلق رکھتا ہو، اپوزیشن کا حصہ ہو، اشرافیہ کا فرد ہو، بیوروکریٹ ہو، مالدار ہو جو رشوت دے کر قانون شکنی کرے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں قانون کی عملداری کی صورتحال کبھی بھی قابلِ رشک نہیں رہی۔ ہر دور میں قانون کی عملداری سے وابستہ نظریات اور محرکات کو کمزور سے کمزور تر کیا جاتا رہا ہے، بلکہ قانون کی تشریح عمومی طور پر اپنے مفادات کے حساب سے کی جاتی ہے۔ جہاں اپنا مفاد اس سے ٹکراتا ہے وہیں پر اسے موڑ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کی منزل دور ہوتی جا رہی ہے۔
قانون کی خلاف ورزی سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں انہیں قانون کے ذریعے ہی ہی حل کیا جانا چاہئے اس کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ اسی طرح آئینی مسائل کو آئینی طریقوں سے حل کیا جانا چاہئے اور سیاسی مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کرنا چاہئے لیکن جب آئینی مسائل کو سیاسی رنگ دے دیا جائے اور سیاسی مسائل کو آئینی بنانے کا عمل جاری رکھا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہوتے ہیں۔ اگر قانون بنانے والوں ، اس کو نافظ کرنے والوں کے سامنے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، اگر ایک گروہ کو یا لوگوں کو خلاف ورزی کرنے کی اجازت ہو یا خلاف ورزی کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور انہیں ایسا کرنے سے روکا نہیں جائے تو اس سے بد امنی پیدا ہو گی، جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں آئیں گی۔ پاکستان میں ہم جمہوریت کا پرچار تو بہت کرتے ہیں لیکن یہاں جمہوری قدریں پروان نہیں چڑھ سکیں ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو تو سب سے پہلے قانون کی عملداری قائم کرنے پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہو گا۔ اس لئے کہ اس کے بغیر نہ جمہوریت قائم ہو گی اور نہ آزادی کی نعمتوں سے قوم اور ملک سرفراز ہو گا۔ جب بااثر طبقوں اور بالادست لوگوں میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ قانون کی گرفت سے بچ سکتے ہیں تو ان کے پاس قانون کو شکست دینے کے طریقے اور وسائل ہیں تو وہ دیدہ دلیر ہو جاتے ہیں اور معاشرہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
ملک میں امن و امان اسی وقت قائم ہو سکتا ہے، جمہوریت اسی وقت بحال ہو سکتی ہے اور قائم ہو سکتی ہے، ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب پورے ملک میں قانون کی عملداری ہو۔ قانونی اور آئینی مسائل کو قانونی طریقوں سے حل کیا جائے۔ فیصلے آئین کے اندر آئین کے تقاضوں کے مطابق کئے جانے چاہئیں۔ جمہوری روایتوں، رویوں، مزاج اور تربیت کے بغیر محض ووٹ شماری سے اسمبلیاں قائم کر کے یہ کہنا کہ جمہوریت بحال ہو گئی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوری تربیت سے محروم پاکستان کے حکمران طبقے، سیاسی اختلافات، قبائلی دشمنی کے انداز میں طے کرنے کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر طاقت اور زور آزمائی کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ سیاست دان بظاہر جمہوریت کے نعرے لگاتا ہے لیکن اندر سے ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو مغلوب کرنے کے لئے ہر ایسا حربہ استعمال کریں جو بے شک غیر جمہوری ہو، لیکن اقتدار انہی کے پاس رہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ہمارے سیاست دان جمہوریت سے لگاؤ کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کا طرزِ عمل بالکل بھی جمہوری نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت ہی موجودہ تمام نظاموں میں سب سے اچھا نظامِ حکومت ہے اور یہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بڑی کامیابی و کامرانی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اول تو اسے پھلنے پھولنے کا موقعہ ہی بہت کم ملا ہے اور جب بھی ملا تو اس کے ذریعے حکومت بنانے والوں نے اسے صرف اپنے مفاد اور ذاتی فائدے کے لئے ہی استعمال کیا۔ عوام الناس کی بہتری اور ملک کی ترقی و خوشحالی شائد ہی ان کی ترجیحات کا حصہ رہی ہو۔یہی وجہ ہے کہ اقتدار کا یہ کھیل آج ہمیں ایک نازک موڑ پر لے آیا ہے۔ سامنے دہشت گردی، مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور معاشی ابتری جیسے نہ ختم ہونے والے لاتعداد مسائل قطار در قطار ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں