مرشدِکامل کا فرمان

ان دنوں متوقع نگران وزیر اعظم کے طور پر بہت سے نام سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم اس حوالےسے نہ صرف یہ کہ میرا نام بہت کثرت سے لیا جا رہا ہے بلکہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب عمائدین شہر میرے پاس نہ آتے ہوں اور دست بستہ یہ گزارش نہ کرتے ہوں کہ اگر وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال آپ کے نام نکلتا ہے تو خدارا آپ اپنی درویش صفتی کے پیش نظر معذرت نہ کر دیں کہ سب جانتے ہیں کہ مال و منال اور عہدہ و منصب کی خواہش کبھی آپ کے دل میں نہیں رہی مگر قوم کو ضرورت ہی آپ ایسے درویش منش کی ہے۔ پاکستانی قوم سب کو آزما چکی ہے اب آپ کو آزمانا باقی ہے میں بھی اسی بات سے ڈرتا ہوں ، مجھےآزمائش سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ایک دفعہ نہر کے پل پر سے میرے دوست نہر میں چھلانگ لگاتے تھے اور کتنی دیر تک پانی میں رہنے کے بعد سر باہر نکالتے اور مجھے بھی ورغلاتے کہ تمہیں اگرچہ تیرنا نہیں آتا مگر تم اللہ کے بہت پیارے ہو تمہیں کچھ نہیں ہو گا مگر مجھے ڈر ہی اس بات کا تھا کہ میرا اللہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے کہیں اس پیار کے باعث اپنے پاس ہی نہ بلالے، چنانچہ میں دوستوں کے اُکسانے کے باوجود ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھ کر دور سے یہ نظارہ کرتا رہا۔
اب بھی صورتحال اسی نوعیت کی ہے، مجھے علم ہے کہ پاکستانی عوام مجھ سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں اور ایسی ہی صورتحال مقتدر قوتوں کی ہے اور یوں نہ صرف یہ کہ وزارتِ عظمیٰ کی ممکنہ فہرست میں میرا نام سرفہرست ہو گا بلکہ قبولیت کیلئے اصرار بھی ہوگا چنانچہ جو دوست میرا یہ کالم پڑھیں وہ نہ صرف یہ کہ اس کی سو دو سو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بااثر لوگوں میں تقسیم کریں بلکہ جیسے تیسے بھی ہو یہ تحریرمقتدر افراد تک بھی پہنچائیں نیز تمام اخبارات کے رپورٹرز اور ٹی وی چینلز کے نیوز رپورٹرز سے گزارش کریں کہ ممکنہ وزیر اعظم کی فہرست میں عطا الحق قاسمی کا نام سرفہرست ہونے کی پیش گوئی کریں۔اس سے خدانخواستہ یہ تاثر نہ لیا جائے کہ مجھے وزیر ا عظم بننے کا بہت شوق ہے لاحول و لاقوۃ بلکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس شور شرابے کے نتیجے میں عوام اور خواص کو یقین ہو جائے کہ ممکنہ وزیر اعظم کا فیصلہ قریباً ہو چکا ہے۔اب صرف فیصلہ ہونا باقی ہے اور یہ کہ یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ قاسمی صاحب نے خود کرنا ہے۔اور مجھے یہ بات بار بار بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھ فقیر کو تخت شہی کی کوئی خواہش نہیں اگر خواہش ہے تو صرف اتنی کہ اس آفر کو ٹھکرا کر عوام کے دلوں سے یہ وسوسہ نکال دیا جائے کہ روحانیت کا لبادہ اوڑھنے والے سب کے اندر سے دنیا دار ہوتےہیں!
مجھے محبان عطا الحق قاسمی سے ایک گزارش یہ بھی کرنا ہے اور یہ گزارش بھی ابھی کی گئی مصروفیات ہی کا تسلسل ہے کہ فیس بک پر میرے کروڑوں فالوورزبھی میرے ممکنہ وزیر اعظم بننے کی خوشخبری سے اپنے قارئین کو ابھی سے آگاہ کرنا شروع کر دیں اس حوالے سے جس کسی کا نام بھی زیادہ سے زیادہ ٹائم نیٹ میں آئے گا وہی مستقبل کا نگران وزیر اعظم ہو گا ۔جیسا کہ میں شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ مجھ فقیر کو، مجھ روحانیت کے ادنیٰ سے طالب علم کوحاشا وَ کَلّا ان دنیاوی آلائشوں کی نہ صرف یہ کہ کوئی تمنا نہیں بلکہ میں نے زندگی بھر ان آلائشوں کو خود سے دور رکھا ہے ۔میں یہ کالم ابھی یہیں تک لکھ پایا تھا کہ میرا ایک محب میرے پاس آیا اور جو صفحات میں نے لکھ کر الگ رکھے ہوئے تھے وہ اس نے پڑھنا شروع کر دیئے اور پھر بہت ادب سے بولا’’قبلہ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ عرض کر سکتا ہوں‘‘ میں نے کہا ’’عرض کرو‘‘ بولا، سرکار آپ ہی فرمایا کرتے ہیں کہ ’جیسے حکمران ہوتے ہیں ویسے ہی عوام بھی ہوتے ہیں‘ میں نے کہا ’’ہاں یہی کہتا آیا ہوں‘‘ یہ سن کر اس نے عرض کی ’’پیرومرشد پھر آپ ایسے لوگوں کیلئے جگہ خالی کیوں کرنا چاہتے ہیں جو عوام کو اپنے ہی جیسا دنیادار بنا کر انہیں اسلام سے دور کر دیں گے۔‘‘میں اس کی یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گیا، میں نے اس سے کہا ’’اس حوالے سے کچھ دلائل اور دو‘‘جس پر اس نے دلائل کے ڈھیر لگا دیئے اور یہ دلائل اتنے ٹھوس تھے کہ مجھے اس کے موقف سے متفق ہونا پڑا۔
میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر کوئی کم عقل بھی عقل کی بات کرے تو اپنی رائے بدلنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے، سو مجھے اپنی رائے پر نظرثانی کرنا پڑی چنانچہ اب مجھے نگران وزیر اعظم کا بوجھ بادلِ نخواستہ اٹھانا ہی پڑے گا۔ تاہم آستانہ عطا الحق قاسمی سے وابستہ تمام افراد کو میرا پیغام ہے کہ وہ میڈیا سے اپنے روابط اور مقتدر قوتوں سے اپنے خاکسارانہ رویے نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ یہ تعلقات مزید مضبوط بنانےکیلئےاس کی جملہ شرائط پوری کریں اور یہ کام اتنے والہانہ پن اور زورشور سے کریں کہ نگران وزیر اعظم کے طور پر اس مرشد ِکامل کا نام سرفہرست ہی نظر آئے !

اپنا تبصرہ بھیجیں