“میثاق معیشت: سپہ سالار سب کو ایک جگہ۔”

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی لڑائی الیکشن تک ہے اس کے بعد یہ دونوں اکٹھے بیٹھ جائیں گے ، سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائج نے کہا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو دونوں کی بیانات پارٹی پالیسی ہے ، آصف زرداری اور بلاول بھٹو گڈ کوپ اور بیڈ کو کھیل رہے ہیں ، میرے خیال میں برادرم و محترم سہیل وڑائچ کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ آصف زرداری چونکہ ڈیلر ہیں انہوں نے مذاکرات کرنا ہوتے ہیں اس لیے وہ مصالحانہ بیانات دے رہے ہیں ، بلاول بھٹو نے فیلڈ میں جا کر تقاریر کرنی ہیں اس لیے جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے۔“ آج کے اٍن ابتر معاشی و سماجی و سیاسی معاملات و حالات میں جو آثار نظر آرہے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے سادہ اکثریت بھی حاصل کر پائے گی اور نتیجتاً جو بھی حکومت بنے گی اتحادی حکومت ہی ہو گی جس طرح یہ گزشتہ سولہ ماہ کی حکومت میں ایک تھے یقینا اس الیکشن کے بعد بھی یہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں یہ اکٹھے ہو ہی جائیں گے لیکن سوچنا تو یہ ہوگا کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان دونوں جماعتوں کے روایتی اور مفاداتی اتحاد سے میرے پاکستان اور اہلٍ پاکستان کے مسائل و مشکلات میں کیا کمی آئی ہے ، کمر توڑ مہنگائی ، بےروزگاری اور غربت کی چکی میں پسے ایک عام آدمی کو ان تمام جماعتوں کی حکومتوں اور اتحادوں سے کون سے فوائد حاصل ہوئے ہیں کچھ بھی تو نہیں ، پھر کیوں ان کی یہ باریاں لگی ہوئی ہیں ”ہک جاوے تے دوجا آوے“۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اتنے قرضے اپنے چار سالوں میں نہیں لیے جتنے ان تجربہ کاروں اور مودی کے یاروں نے گزشتہ سولہ ماہ میں لے لیے ہیں ، اس اتحادی حکومت نے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کی اُس گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا ہی محال لگتا ہے ، اپنے اٍن سولہ ماہ میں یہ اتحادی حکمران اپنے اپنے گناہ معاف کراتے رہے ، مقدمات ختم کراتے رہے ، اپنے قائد نواز شریف اور اسحٰق ڈار کی واپسی کے راستے نکالتے رہے اور پھر اُوپر سے بھاری سودی قرضے لے لے کر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کر کے گئے ہیں لیکن باز ہم پھر بھی نہیں آ رہے ہیں ، جو منی لانڈر و کرپٹ حکمران گزشتہ چالیس سالوں سے اس ملک و قوم پر مسلط رہ کر مظالم ڈھاتے رہے اب پھر سے انہیں ہی لایا جا رہا ہے ، چلے ہوئے کارتوسوں کو ہی آزمایا جا رہا ہے ۔ جی ہاں یہ اس سسٹم کا بڑا ہی پرانا لاڈلا ہے جو 1980 کے عشرے سے مسلسل نوازا جا رہا ہے ، کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی جو اپنی ہی جائیدادوں کی منی ٹریل تک نہ دے سکا اور اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ یعنی قطری خط لے کر آ گیا سپریم کورٹ میں اور پھر جب پانچ کے پانچ ججز نے جھوٹ ، بددیانتی اور منی ٹریل نہ ہونے کی وجہ سے نااہل کر کے گھر بھیج دیا تو جی ٹی روڈ ناپتا ہوا لاہور گیا اور بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ یہ کہتا گیا اور آج بھی کہہ رہا ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پہ مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا ۔ شاید ہمارے حافظے کمزور ہیں اور ہم یہ سب کچھ بھول گئے ہیں اٍس لیے سسٹم کے اٍس لاڈلے اور بگڑے ہوئے بچے کو پھر سے مسلط کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں ۔ افسوس تو اٍس بات کا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ سمیت ہمارے تمام کے تمام کرتا دھرتا اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں ۔ بقول شاعر :

نگہی چادر تان کے سو گئے
مالک چور پچھان کے سو گئے
لُٹن والیاں رج رج کے لُٹیا
جاگن والے جان کے سو گئے

سچ تو یہ ہے کہ بات کسی اگلی یا پچھلی حکومت کی نہیں بلکہ گزشتہ دس سالوں سے ملک میں مہنگائی کا گھوڑا بے لگام دوڑ رہا ہے مگر کوئی بھی حکومت اس کو لگام نہ ڈال سکی ، غریب آدمی کی تو زندگی ہی اجیرن ہو گئی ہے ، اشیائے خورد و نوش عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں ، ہر ماہ بجلی کا بل ادا کرنا جیسے پُل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے مگر ان حالات و معاملات میں بھی معلوم نہیں ہم فیض آباد دھرنے ، نو مئی اور خاور مانیکا میں سے کیا نکالنے لگے ہیں ۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم مُنیر نے پاکستان کی پائیدار معاشی بحالی میں پاک فوج کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا یقین دلایا ، آج کے ان مشکل ترین حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سپہ سالار سب کو ایک ٹیبل پر بٹھائیں ایک میثاقٍ معیشت کی خاطر سب سیاستدان ، تمام کرتا دھرتا ، تمام تر اختلافات ختم کر کے مل بیٹھیں اور معیشت کو درست کریں ، مہنگائی کو ختم کریں ، صرف اور صرف ملک و قوم کا مفاد سوچیں ۔ اٍسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو بقول اقبال :

نہ سمجھو گے تو مٍٹ جاؤ گے اے ”پاکستان“ والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اپنا تبصرہ بھیجیں