حلال فوڈ انڈسٹری اور مسلمان ممالک

پاکستان میں حلال اشیا کے بارے میں نہ تو شہریوں کو کوئی آگاہی حاصل ہے اور نہ ہی تعلیم یافتہ طبقہ اس باب میں کوئی علم رکھتا ہے، اسلامی نظام میں حلال اشیا کا استعمال بہت ضروری ہے، حکومت کو اس سلسلےمیں آگاہی پروگرامز ترتیب دینے چاہیں تاکہ ہم بہتر اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں میںناصرف سیمینارز منعقد کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ’’حلال میڈیا‘‘ کا تصور بھی فروغ پا رہا ہے کہ میڈیا کی پیوریفیکیشن کس طرح عمل میں لائی جانی چاہئے، حلال اشیا کا تصور اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، دنیا میں حلال فوڈ کی سالانہ تجارت کا حجم 650 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت دنیا کی مجموعی حلال مارکیٹ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس کے 80 فیصد کاروبار پر غیر مسلم ممالک کا کنٹرول ہے جن میں امریکہ، برازیل، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس شامل ہیں جو حلال فوڈ برآمد کرنے والے بڑے ممالک شمار کئے جاتے ہیں جب کہ ایشیا میں حلال فوڈ برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھائی لینڈ ہے جس کے بعد بالترتیب فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیاء، سنگا پور اور بھارت اس فہرست میں نمایاں ملکوں میں شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف یورپی ممالک میں حلال ٹریڈ کا حجم سالانہ 66 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں فرانس کی 17ارب ڈالر اور برطانیہ کی 600 ملین ڈالر کی تجارت بھی شامل ہےجب کہ امریکہ کا حلال فوڈ ٹریڈ 13 ارب ڈالر ہے۔ برازیل دنیا میں حلال فروزن چکن برآمد کرنے والادنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو 100 سے زائد ممالک کو 10 لاکھ میٹرک ٹن حلال فروزن چکن برآمد کرتا ہے جب کہ فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال فروزن چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی حلال بیف کی برآمدات80فی صد جب کہ نیوزی لینڈ بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی بیف کی برآمدات40 فی صد ہیں۔ خلیجی ممالک گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سالانہ 44 ارب ڈالر کا حلال فوڈ امپورٹ کرتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ یعنی 54 فی صد گوشت برازیل فراہم کرتاہے، حلال فوڈ کی تیاری اب بہت بڑی انڈسری کی شکل اختیار کر چکی ہے جس سے بہت سے ممالک کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور تجارتی روابط میں بہتری اور تیزی آئی ہے۔ حلال فوڈ میں اب خوراک سے متعلقہ اشیا ہی نہیں بلکہ دیگر اشیا بھی شامل ہو چکی ہیں۔پاکستان سمیت دنیا بھر کی جامعات اس موضوع پر ڈگریاں جاری کرتی ہیں جب کہ طالب علموں کی بھی اس مضمون میں دلچسپی غیرمعمولی ہے۔
ترقی پذیر ممالک اوربالخصوص یورپ میں خوراک کے معیار پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں عوام اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے، حکومت کو بھی چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا اور پاکستان کی فوڈ انڈسٹری میں خام مال کے استعمال اور معیار کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ حلال وحرام کی تمیز ہمارے معاشرے سے ختم ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث صحت مند معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہےچناں چہ اس باب میں انفرادی اور اجتماعی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم ابھی تک ’’حلال پاکستان برانڈ‘‘ کو صحیح معنوں میں متعارف نہیں کراسکے حالانکہ 2011ء میں پاکستان حلال پروڈکٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کے قیام کی منظوری دی جاچکی ہے۔حلال فوڈ کے بعد اب دنیا مسلمان مسافروں اور سیاحوں کی اربوں ڈالر کی مسلم ٹریول مارکیٹ کے کاروبار پر فوکس کر رہی ہےکیوں کہ دنیا میں ابھی تک ہوٹلوں، ایئرلائنز اور ٹور آپریٹرز نے مسلم سیاحوں کو اُن کی ضروریات کے مطابق خاطر خواہ سہولتیں فراہم نہیں کی ہیں۔ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس حد تک ملک کو حلال اشیا کے استعمال کی طرف لے کر جا سکتے ہیںجس میں فی الحال وقت لگے گا،منہاج یونیورسٹی اس سلسلہ میں کئی اقدامات کر چکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال مسلمان سیاحوں جن میں ملائیشیا، ترکی اور عرب امارات کے شہری سرفہرست ہیں، نے سیاحت پر 130 ارب ڈالر خرچ کئے جو دنیا کی مجموعی سیاحت کا13 فی صدہے اور یہ 2020 تک بڑھ کر 200 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔
یہ پیشِ نظر رہے کہ بین الاقوامی سطح پرتاحال تسلیم شدہ اور سرٹیفیکیشن کا کوئی باقاعدہ طریقۂ کار موجود نہیں ہےجس کے باعث عملی طور پر مشکلات پیدا ہو رہی ہیںجن کے حوالے سے مربوط بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ حلال فوڈ سرٹیفکیٹ کمپنیوں کو نہیں بلکہ مصنوعات کوجاری کیا جاتا ہے۔
حلال فوڈ مارکیٹ ایک بہت بڑی اور ترقی کر رہی مارکیٹ ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے معاشرے کی ضروریات اور معیار کو مد نظر رکھنا بھی حکومت کے لئے بہت ضروری ہے ،ہم جو روزمرہ کی اشیا استعمال کرتے ہیں ان پر حلال لکھا ہوتا ہے جس سے ان مصنوعات کے حلال ہونے کی تصدیق ہوتی ہے، پاکستان میں اب حلال کے معیارات دوسرے ممالک سے مختلف ہیں البتہ حلال فوڈ انڈسٹری اور حلال ٹورازم انڈسٹری کا معاملہ غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں