حقیقی زیاں کار

سورۃ البقرۃ آیت 27
‘بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
*الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ۞*

جو خدا سے مستحکم عہد و پیمان کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور جس (رشتہ) کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے ہیں۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں (دراصل) یہی لوگ ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ۔

🕯️ *تفسیر آیت*🕯️
گذشتہ آیت کے آخر میں چونکہ فاسقین کے گمراہ ہونے سے متعلق گفتگو تھی لہٰذا اس آیت مین ان کی تین صفات بیان کرکے انہیں مکمل طور پر مشخص کردیا گیا ہے ۔ ذیل میں ان علامات وصفات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔
(۱) فاسق وہ ہیں جوخدا سے محکم عہد وپیمان باندھ کر توڑ دیتے ہیں( الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ) ۔حقیقت یہ ہے کہ ا نسانوں نے خدا سے مختلف پیمان باندھ رکھے ہیں ۔ توحید و خدا شناسی کا پیغام اور شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرنے کا پیمان ۔فاسق ان تمام پیمانوں کو توڑ دیتا ہے وہ فرمان حق سے سرتابی کرتا ہے اور شیطان اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتا ہے۔ یہ پیمان کہاں اور کس طرح باندھا گیا تھا : یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پیمان تو دو طرفہ معاملہ ہے ہمیں بلکل یاد نہیں کہ ہم نے گذشتہ زمانے میں اس سلسلہ میں اپنے پروردگار سے کوئی عہد وپیمان کیا ہو۔ ایک نکتہ کی طرف متوجہ ہونے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ روح کی گہرائی اور سرشتِ انسا ن کے باطن میں ایک مخصوس شعور اور کچھ خاص قسم کی قوتیں پا ئی جاتیں ہیں جنکی ہدایت کے ذریعہ انسان سیدھی راہ اختیار کرسکتا ہے اور اسی ذریعہ سے وہ خواہش نفس کی پیروی سے بچتے ہوئے رہبران الہٰی کی دعوت کا مثبت جواب دے سکتا ہے اور خود کو اس دعوت سے ہم آہنگ کرسکتا ہے ۔
قرآن اس مخصوص فطرت کو عہد وپیمان الہٰی قرار دیتا ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک تکوینی پیغام ہے نہ کہ تشریعی و قانونی ۔ قرآن کہتا ہے :الم عھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان ج انہ لکم عدو مبین و ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم
اے اولادِ آدم —- کیا ہم نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا جو تمہارا واضح دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا جو سیدھا راستہ ہے (یٰس ۔۶۱،۶۰)
واضح ہے کہ یہ اسی فطرتِ توحید و خدا شناسی کی طرف اشارہ ہے اور انسان میں راہ تکامل طے کرنے کا جو عشق ہے اس کی نشاندہی ہے ۔اس بات کے لئے دوسرا شاہد وہ جملہ ہے جو نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں موجود ہے :
وبعث فیھم رسلہ وواتر الیہ ا نبیائہ یستادوہ میثاق فطرتہ۔
خدا وند عالم نے یکے بعد دیگرے لوگوں کی طر ف ا پنے رسول بھیجے تا کہ ان سے یہ خواہش کریں کہ وہ اپنے فطری پیمان پر عمل کریں ۔ مزید واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے انسان کو ہر نعمت وافر دی ہے اور اس کے ساتھ عملی طور پر اس سے زبان آفرینش میں عہد وپیمان لیا ہے ۔ اسے آنکھ دی ہے تا کہ اس سے حقائق کو دیکھ سکے کان دیا تا کہ حق کی آواز سن سکے اور اسی طرح دیگر نعمات ہیں ۔ جب انسان اپنی فطرت کے مطابق عمل پیرا نہ ہو یا خدا داد قوتوں کا غلط استعمال کرے تو گویا اس نے عہد وپیمان خدا کو توڑ دیا ۔فاسق تمام کے تمام یا ان میں سے بعض فطری پیمانوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں ۔
(۲) اس کے بعد قرآن فاسقین کی دوسری علامت کی نشاندہی یوں فرماتا ہے : جو تعلق خدا سے قائم رکھنے کو کہا ہے وہ انہیں منقطع کردیتے ہیں (ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل) ۔ بہت سے مفسرین نے اگرچہ اس آیت کو قطع رحمی اور عزیزداری کے رشتے کو منقطع کرنے سے مخصو ص سمجھا ہے لیکن مفہوم آیت پر گہرا غور نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے معنی زیادہ وسعت اور زیادہ عمومیت رکھتے ہیں جس کی بنا پر قطع رحم اس کا ایک مصداق ہے کیونکہ آیت کہتی ہے کہ فاسقین ان رشتوں اور تعلقات کو منقطع کر دیتے ہیں جنہیں خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اب یہ پیوند ، رشتہ داری کے ناتے اور دوستی کے ناتے ، معاشرے کے ناتے ، خدائی رہبروں سے ربط و پیوند اور خدا سے رابطہ سب پر محیط ہیں لہٰذا آیت کو قطع رحمی اور رشتہ داری کے رابطوں کو روند نے کے معنی میں منحصر نہیں کرنا چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین کے نزدیک اس آیت سے مراد انبیاء ومؤمنین سے رابطہ منقطع کرنا ہے، بعض کے نزدیک اس کامفہو م انبیا ء اور آسمانی کتابوں سے رابطہ قطع کر نا ہے کیونکہ خدانے ان سے رابطہ استوار رکھنے کا حکم دیا ہے واضح ہے کہ یہ تفسیریں بھی آیت کے مفہوم کا جز ہیں ۔ بعض روایت میں ”ماامراللہ بہ ان یوصل“ کی تفسیر امیرالمؤمنین اور ائمہ اہل بیتؑ سے مربوط کی گئی ہے ۔(۱)
(۳)فاسقین کی ایک اورعلامت زمین میں فساد پیدا کرنا ہے جس کی آخری مرحلے میں نشان دہی کی گئی ہے ۔وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں (ویفسدون فی الارض)۔ یہ واضح ہے کہ جنہوں نے خداکو بھلادیا ہے ، اس کی اطاعت سے رخ موڑ لیا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے رحم اور شفقت کا برتاوٴ نہیں کرتے وہ دوسروں سے کیسا معاملہ کریں گے۔وہ اپنی مقصد براری ، اپنی لذتوں اور ذاتی فائدوں کی فکر میں رہیں گے ۔معاشرے کی حالت کچھ بھی ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا ہدف تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ اس ہدف و غرض تک پہنچنے کے لئے وہ کسی بھی غلطی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ واضح ہے کہ اس طرز فکروعمل سے معاشرے میں کیسے کیسے فسادات پیدا ہوتے ہیں ۔
زیرِ بحث آیت کے آخر میں ہے کہ یہی لوگ زیاں کار اور خسارہ اٹھانے والے ہیں (اولئک ھم ا لخاسرون)۔
واقعاً ایسا ہی ہے ۔اس سے بدتر کیا خسارہ ہو گاکہ وہ تمام مادی اور روحانی سرمایہ جس سے انسان بڑے بڑے اعزاز اور سعادتیں حاصل کر سکتا ہے اسے اپنی فنا و نابودی ، بدبختی اور سیاہ کاری کی راہ میں خرچ کر دے اور جو لوگ مفہومِ فسق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اطاعت کے مرکز سے خارج ہوگئے ہیں ان کی قسمت میں اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔

(۱) نورالثقلین ،جلد ،۵۴
(مزید توضیح کے سلسلے میں نیز ان روایات کے لئے جو ان پیوندوں کے مفہوم کی وسعت سے متعلق ہیں اسی تفسیر (نمونہ)میں سورہٴرعد کی آیہ۲۱ کے ذیل میں ملاحظہ کیجئے)

اپنا تبصرہ بھیجیں