مضبوط جمہوریت، مضبوط فوج۔ دو ستون

نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ کوئی اچانک وقوع پذیر نہیں ہو گیا اور نہ ہی اس کا محرک کوئی وقتی اشتعال تھا جوسب کچھ جلا کر راکھ کرنے پر تل گیا تھا ۔ یہ مخصوص مقاصد رکھتا تھا اور سب سے بڑا مقصد دس مئی کو ہونے والی ایک اہم میٹنگ کو ناکام بنانا تھا ۔ کیونکہ عوام میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ان قوتوں کیلئے بہت ضروری ہو چکا تھا جو بھارت کی اگست دو ہزار انیس کے کشمیر کے حوالے سے کئے گئے اقدامات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت اپنی عسکری طاقت کی بنیاد پر کچھ بھی کر سکتا ہے اور پاکستان کیلئے صرف دھوپ میں کھڑا ہونا ہی ان اقدامات کے حوالے سے ممکن رہ گیا ہے ۔ میر جعفر، میر صادق سے تشبیہ دینا محض اقتدار سے رخصتی کا رد عمل نہ تھا بلکہ یہ عوام کی ذہن سازی کی جا رہی تھی ۔ ابھی نندن کی رہائی کو درست ثابت کرنےکیلئے کی گئی تقریر میں جو دلائل دیےگئے تھے وہ کس کو کمزور ثابت کرنے کیلئےدیے گئے تھے ؟ تنقید اس جرنیل پر کی جانی چاہئے جو سیاست کو کٹھ پتلیوں کا کھیل بنانے کیلئے اپنی وردی کو داغدار کر رہا ہو مگر یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کی سلامتی کی خاطرجان قربان کرنے والے شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا جائے اور فوج کو بطور ادارہ مطعون کیا جائے ۔تاہم اس تربیت کی ذمہ داری تو لیڈر پر آتی ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟ راقم الحروف نے پانچ جون دو ہزار اٹھارہ کو نواز شریف سے عدالت میں اپنی ملاقات کے حوالے سے’’ پُر امید نواز شریف‘‘کے عنوان سے کالم سپرد قرطاس کیا تھا ۔ اس وقت نواز شریف اور ان کا خاندان کیوں بدترین حالات کا شکار تھا سب جانتے ہیں ۔ میں نے تحریر کیا تھا کہ میں جب نوازشریف سے گفتگو کر رہا تھا تو میرے ہاتھوں میں کرنل سہیل شہید کے بچوں کی تصویر والا اخبار تھا’’ نواز شریف کی نظریں شہید کے بچوں کے چہروں پر ٹھہر گئیںاور خود کلامی کے انداز میں بولے کاش ان کے باپ کو بچایا جا سکتا۔میں اس پر امید شخص کی آنکھوں میں موجود عزم کو دیکھتارہ گیا ، جس کی نگاہ شہید کرنل سہیل کے معصوم بچوں کی تصویر پر ٹکی ہوئی تھی‘‘۔ جب ایسے بدترین حالات میں بھی لیڈر اپنی سوچ اور طرز عمل کوذمہ دارانہ رکھتا ہے تو پھر اس کے حامی بھی فوج اور آئین شکنوں کے درمیان فرق رکھ کر اقدامات کرتے ہیں ورنہ نومئی کی مانند شہدا کی یادگاروں تک کو پامال کردیا جاتا ہےکہ جس سے ان شہداکے معصوم بچے لپٹ کر روتے ہیں۔ نو مئی سے قبل ہی ذہن سازی اور حکمتِ عملی تیار کی جاچکی تھی کہ جیسے ہی کوئی قانونی گرفت سامنے آ کھڑی ہوئی تو فوج کو ہدف بنا لینا ہے ۔ اس سے ایک تو یہ مقصد حاصل کرنا تھا کہ پاکستان اب داخلی طور پر بھی اتنا کمزور پڑ چکا ہے کہ بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا،پھر پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک کی سلامتی کے حوالے سے اہم اقدامات پر آگے بڑھنے کی تیاریاں کر رہا ہے اور اس حوالےسے ملاقات 10مئی کو ہونا قرار پا ئی تھی۔ اس ملاقات کو سبوتاژ کردیا گیا۔ ان سنگین واقعات کی آڑ میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ فوج تو ملک کے اندر خود سلامتی کے مسائل سے دوچار ہے تو کسی دوسرے ملک کی قومی سلامتی میں کیا کردار ادا کرے گی۔ عمران خان کا طرزعمل بتا رہا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی گرفتاری کوئی غیرمتوقع نہیں تھی۔ چندروز قبل برطانوی دوست سے ملاقات ہوئی تو وہ پوچھنے لگے کہ عمران خان کس مقدمے میں گرفتار ہو سکتے ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ جو مقدمہ آپ کے ملک سے چلا ہے ۔ بالکل صاف اور واضح بددیانتی کا مقدمہ جس میں کسی لمبی چوڑی قانونی موشگافیوں کی ضرورت نہ ہوگی ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ نون ابھی تک اپنے حامی طبقات کو اس کی جزئیات تک سے آگاہ نہیں کر سکی ۔ اس لئے عمران خان کے حامی اب بھی ان کی وکالت کر رہے ہیں جس دن عمران خان گرفتار ہوئے تو کراچی کے معروف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹ جلال خان کا مجھے فون آیا جو عشق عمران میں مبتلا ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ دو دن میں رہا ہو جائیںگے توبولے کہ کیسے ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ کوئی سائنس نہیں سیدھی سی بات ہے کہ چیف جسٹس ان کی گرفتاری کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ مضبوط جمہوریت اور مضبوط فوج پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے ،ان میں سے کوئی ایک ستون بھی کمزور تو پاکستان کمزور ۔ عوام فوج کے ساتھ ہو تو پھر دشمن کی طاقت بے معنیٰ ہو جاتی ہے جیسے روس کی طاقت یوکرائن کے سامنے بے معنی ثابت ہوگئی ۔گمان کیا جاتا تھا کہ جب روس یوکرائن پر حملہ آور ہوگا تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوگا۔ مگر چونکہ عوام فوج کے ساتھ تھےتو قوم نے مقابلہ کر کے دکھا دیا۔ روسی غیر روسی کی وہاں پر تفریق پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی حالانکہ ان کے صدر خود بھی روسی زبان ہی بولتے ہیں مگر تفریق کی یہ سازش ناکام ہو گئی ۔ اس میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ کسی بھی بنیاد پر تفریق کو درمیان میں نہیں آنے دینا چاہئے نفرت کی سیاست کو دفن کرنا چاہئے اور فوج کی ساکھ کو برقرار رہنا چاہئے ورنہ المیہ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کے ایک خونچکا ںباب کی صورت موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں