عدالتی و پارلیمانی بحران کا واحد حل؟

اگر کوتاہ نظری سے ملاحظہ کیا جائے تو 4اپریل کے فیصلے سے پاکستاان کا عدالتی ہی نہیں سیاسی بحران بھی اختتام پذیر ہو گیا ہے کیا ’’مدبرانہ‘‘ فیصلہ آیا ہے جس نے تنازعات کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ ہی نہیں دے ڈالی ہے بلکہ ایک طرح سے انتخابی شیڈول بھی یہ کہ کاغدات نامزدگی کب تک جمع کروائے جا سکتے ہیں اس کا پروگرام بھی جاری فرما دیا گیا ہے کسی شخص یا پارٹی سے تعلق واسطہ یا وابستگی ہو تو ایسی کہ پوری قوم او ر دنیا کو نظر بھی آئے بس اس عجلت میں تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے کہ اس روا روی میں لگے یا رنگے ہاتھوں 14مئی کے انتخابی نتائج کا اعلان بھی فرما دیتے کیونکہ کل کلاں اس میں بھی الجہنیں یا تنازعات اٹھ سکتے ہیں کیوں بہ حفظ ماتقدم یا پیش بندی کے طور پر ایسے کسی تنازع کا پیشگی مکو ٹھپ دیا جاتا تاکہ تاریخ میں لیلیٰ مجنوں یا ہیر رانجھا جیسی نہ سہی ٹائٹینک جیسی لوسٹوری کو ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جاتا ۔
اہل وطن کو ہو نہ ہو پی ٹی آئی کے دوستوں کو مبارک، بنڈیال کورٹ نے ایک ہی جہت میں کر دیا قصہ تمام اس رولے گولے کو بے کراں سمجھا تھا میں اب آپ سب کے وارے نیارے ہو جائیں گے آپ کی پارٹی مقبولیت کی بلندیوں پر جھوم رہی ہے مخالفین سارے کے سارے تتر بتر ہوئے پڑے ہیں گومگو کی اس فضا میں انہیں ٹکٹ بانٹنا تو دور کی بات کاغذات جمع کروانے کی مہلت تک نہیں ملے گی لہٰذا نصرمن اللہ و فتح قریب کا منظر نامہ سامنے ہے، آپ سب کی سیٹیں پکی ہیں جو چند مہینوں بعد یعنی اکتوبر تک منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو جتوانے میں پوری معاونت فرمائیں گی۔اقتدار میں فیصلہ کن حیثیت تو پنجاب کو حاصل ہوتی ہے یہاں کیئرٹیکروں کی نہیں جب اپنی حکمرانی ہو گی تو پھر کس کی مجال ہو گی کہ وہ نیشنل اسمبلی کی بھی کوئی سیٹ جیت سکے اس کے بعد ہمارے جناح ثالث کی مراجعت ہو گی یوں وہ سب کی ٹھکائی کرتے ہوئے تن کر رکھ دے گا اپنے نعرے ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ پر پورا عمل ہو گا۔
بات یہاں تک رہتی تو ساون کے رحمتے کو سب ہرا ہی ہرا دکھتا رہتا لیکن بدقسمتی سے اس تصویر یا منظرنامے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو خوش کن نہیں افسوسناک ہے۔کسے معلوم نہیں کہ اس وقت جو پولرائزیشن یا انار کی ہماری پوری سوسائٹی بالخصوص سیاست میں ہے ہماری سپریم جوڈیشنری بھی اس میں بری سرح لتھڑی پڑی ہے کہنے کو چیف جج خود کو بھی سپریم کورٹ گردانے کھڑا ہے لیکن کیا ہمارا آئین کسی فرد واحد یا تین کے ٹولے کو سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے؟اگر درویش پر اعتبار نہیں تو محترم عرفان قادر کو بھی چھوڑ دیں حامد خاں صاحب سےاستفسار فرما لیں۔ اور کیا آئین اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی چیف جج بشمول الیکشن کمیشن، انتظامیہ، مقننہ بلکہ پارلیمینٹ کے اختیارات پر بھی براجمان ہو جائے؟؟ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ کوئی چیف جج انتخابات کی تاریخ اور انتخابی شیڈول جاری کر سکتا ہے؟؟ اور کیا 14مئی کی تاریخ 90دن کے اندر بنتی ہے ؟نہیں بنتی نا؟تو پھر آئین کی خلاف ورزی تو تم نے خود کر دی سیانے کہتے ہیں چوری ککھ کی بھی چوری لکھ کی بھی، ہر دو صورتوں میں آئینی خلاف ورزی کے مرتکب تو آپ خود ہو رہے ہیں۔
جب پوری قوم پورا قومی میڈیا چیخ رہا ہے کہ اس حساس ترین ایشو پر پارٹی بازی کرنے کی بجائے آپ اپنے تمام ساتھی ججز کو ساتھ بٹھاتے ہوئے فل کورٹ کے تحت شنوائی کرو تو پھر آپ کو کاہے کا خوف کھائے جا رہا ہے ؟یہ آپ کا کوئی گھریلو معاملہ ہے کیا؟جس میں ماں بیٹی گانے والی اور باپ بیٹا جانجی یا باراتی ہوں۔اتنا بڑا قومی ایشو ہے آپ اس وقت خود کو پارلیمینٹ کی اتھارٹی کے بالمقابل کھڑے کیسے ہوئے ہیں سیاست دانوں کو بھاشن دے رہے ہیں کہ سب مل بیٹھ کر فیصلے کرو حکمرانیت کم کرو لیکن خود اپنے ادارے کے اندر کیا کر رہے ہیں آپ ؟یہ تو نہیں ہے کہ آپ کی چار آنکھیں اور دو دماغ ہیں یا آئین فہمی میں آپ کی خصوصی مہارت ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی نہیں ہے۔
جب 9ججز بیٹھے تھے جنہیں مابعد 7کر دیا گیا اور انہوں نے سوموٹو کی اس تمامتر کارروائی یا کارستانی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چار تین کا فیصلہ صادر کر دیا تو کیا وہ اس عدالت عظمیٰ کے قابل احترام ججز نہ تھے؟؟اس بنچ کے فیصلے کو آپ نے کیوں ہوا میں اڑا دیا؟؟جب اس سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے پارلیمینٹ کی قانون سازی تک سوموٹو کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا تو ایک انتظامی سرکلر کے ذریعے آپ نے کسی آئینی شق کے تحت اس کی تذلیل فرمائی ؟؟؟
کسی بھی جمہوری حکومت کو چاہئے کہ آمریت عسکریت سے آئے یا جوڈیشل ایکٹیوازم سے پھوٹے اس کے خلاف پوری طرح سٹینڈ لیا جائے اور پارلیمینٹ جو کہ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے بلکہ آئین اور دیگر تمام اداروں کی ماں ہے اس کی اتھارٹی اور وقار و احترام پر ڈٹ کر کھڑے ہوا جائے پارلیمینٹ کے فیصلوں کی توہین درحقیقت بائیس کروڑ عوام کی توہین ہے جو اپنے نمائندگان کو چن کر اپنی ترجمانی کیلئے یہاں بیٹھتے ہیں اگر وہ اپنے ناجائز حکم کی عدولی پر وزیر اعظم کے خلاف اقدام اٹھاتے ہیں تو اٹھانے دیں ویسے بھی درویش کی تمنا ہے کہ شہباز شریف کو ایسے ہی باوقار طریقے سے گھر چلنا چاہئے تاکہ اس پر چاپلوسی کا جو سنگین دھبہ ہے وہ کسی حد تک دہل سکے ۔ان کے بعد طویل لائن ہے خواجہ آصف، رانا تنویر، احسن اقبال اور پھر شاید بلاول کو بھی ایک موقع ہاتھ آ جائے اس عہدے پر براجمان ہونے کا ۔اگر جوڈیشل ایکٹوازم یا مار دھاڑ کے نام پر یہاں جمہوریت کا تماشا بنایا جاتا ہے تو بنانے دیں آپ لوگوں کی اپنی بھی تو کوتاہیاں ہیں آپ لوگوں نے پارلیمینٹ کی حقیقی اتھارٹی منوائی کب ہے ؟؟جب غیر منتخب لوگ منتخب عوامی قیادت کے خلاف گھنائونی کارروائیاں کرتے ہیں یا ان کا تمسخر اڑاتے ہیں تو آپ یہ تماشے کیوں دیکھتے ہیں؟ گیلانی اور نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا وہ آپ لوگوں نے کیسے ہضم کر لیا اور کیوں کر لیا؟؟؟
اگر کسی کے ذہن میں انتخابات سے بھاگنے کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہر گز نہیں ہے کوئی جینوئن سیاست دان انتخابات سے بھاگ سکتا اور ن لیگیوں کو تو پنجاب میں پاپولیریٹی کا زعم رہا ہے اصل ایشو ترازو کے پلڑوں میں توازن کا ہے جو زیادتی یا سچائی سے کام لیا جائے تو حرامزدگی 2018ء کے انتخابات سے قبل من پسند نتائج نکلوانے کیلئے پوری پلاننگ کے ساتھ کی گئی تھی جس کے تمام شواہد و حقائق آج پوری قوم کے سامنے ننگے ہو کر آ چکے ہیں مسئلہ اس زیادتی کے ازالے کا ہے بس آپ جیسی تیسی ریس کروانا چاہتے ہیں لیکن جن گاڑیوں کو پنکچر کرتے ہوئے آپ نے کارنر کر رکھا ہے انہیں مرمتی کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتے تو پھر کسی ایسی یکطرفہ ریس یا کارروائی میں آئینی شفافیت کا تقاضا کیسے پورا ہو گا؟ آپ لوگ پارلیمینٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ پر یکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کو لاگو ہونے دیں اور جو ظلم 2018میں روا رکھا گیا اس کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو جاتا ہے تو کون کافر انتخابات سے بھاگ رہا ہے اس نوع کی دہائیاں ڈالنے والے یاد رکھیں کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کبھی ایسے نہیں ہوا کہ قومی و صوبائی انتخابات میں اس نوع کے فاصلے رکھے گئے ہوں یہ ہماری انتخابی روایت ہے جس میں تین دن کے فرق کو بھی یہ کہتے ہوئے آئینی طور پر مٹا دیا گیا کہ مبادا قومی اسمبلی میں جیتنے والا صوبائی انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے۔اس پس منظر میں ملاحظہ کیا جائے تو قومی و صوبائی انتخابات اکٹھے کروانا ہی آئینی تقاضا ہے اور حال ہی میں سیاسی بحران پیدا کرنے کیلئے جس طرح صوبائی اسمبلیاں توڑی گئی ہیں ان پر بہت کچھ لکھا بولا جا سکتا ہے بدنیتی اس میں شامل و ثابت ہے اور پھر عاقبت نااندیش لوگوں کو شاید یہ ادراک نہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ اقدام اسے شدید بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جس کے نتائج کاتصور بھی بھیانک ہے درویش کی نگاہیں دھاندلی کے نام پر بڑا لاوا پھوٹتا دیکھ رہی ہیں اور پھر اکتوبر کون سا دور ہے تب تک بہت سی صفائیاں ہو چکی ہونگی یوں آئینی تقاضے کے عین مطابق قومی و صوبائی انتخابات ا اکٹھے منعقد ہو سکیں گے لہٰذا شعبدہ بازیاں دکھانے کی بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مقدم ر کھیں اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئین کی عین مطابقت میں اپنی صفوں کے اندر موجود پھنسی پھوڑوں کو صاف کرنے کا پورا موقع دیا جائے اور یہ سب پارلیمینٹ کی نگرانی میں ہو ۔

3 تبصرے “عدالتی و پارلیمانی بحران کا واحد حل؟

  1. You’re in reality a excellent webmaster. The web site loading velocity is amazing. It kind of feels that you’re doing any unique trick. In addition, the contents are masterwork. you’ve done a excellent job in this topic! Similar here: zakupy online and also here: Zakupy online

اپنا تبصرہ بھیجیں