سری،پائے

کھانے کے شوقین حضرات کے لئے یہ نام پڑھتے ہی منہ میں پانی آ گیا ہو گا۔ پر جس سری ،پائے کی میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ کھانے والی چیز نہیں بس دیکھنے اور نظارہ کرنے والی چیز ہے۔ اگر جنت نظیر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
الحمداللہ پاکستان میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں پر خدا کی قدرت اور اس کے کینوس پر بکھرے ہوئے رنگ نمایاں ہیں۔ دیکھ کر بے ساختہ منہ سے سبحان اللہ کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔اور اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ میری زمیں پر چلو پھرو اور قدرت کی نشانیوں پر غوروفکر کرو۔
موجودہ ماحول جس میں مایوسی فرسٹریشن ڈیپریشن نمایاں ہے۔ سیاحت ایک بہت ہی اچھی تھیراپی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ لوگوں نے اس کی اہمیت کو جان لیا ہے ۔ جس وجہ سے مقامی سیاحت کو فروغ ملا ہے۔خاص کر ہمارے پہاڑی مقامات سیاحت کے لئے بہت موزوں ہیں۔
مجھے بھی بالا کوٹ سے آگے شوگران اور اس سے آگے مزید جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے مشہور پوائنٹ سری، پائے کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔ عام فہم انسان اس کو کھانے والی ڈش سے اس کو موسوم کرتے ہیں۔ لیکن جیپ ڈرائیور کے بقول سری ان کی مقامی زبان کے مطابق سخت مشکل جگہ کو کہتے ہیں جہاں پر پانی کا حصول قدرے مشکل ہے اس لئے اس کو سری بولا جاتا ہے۔
اور جب پائے کے بابت پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ کیونکہ ملکہ پربت پہاڑ جہاں سے شروع ہوتا ہے تو اس نسبت سے اس کو پائے بولا جاتا ہے۔
تین دن کی سیاحت سے کافی کچھ دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا وہاں کافی تکلیفات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
کہتے کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام تکالیف کو خاطر میں نہیں لائے۔پر یہ ضرور ٹھان لی کہ اس موضوع پر لکھنا چاہئے اپنی طرف سے تجاویز دینی چاہئے
کہ شاید کسی کے کان پر جوں رینگ جائے۔
ٹریفک کے مسائل: بیشک بڑی سڑکیں اچھی معیاری ہیں۔ لیکن ذیلی سڑکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ جو جیپ سروس لوگ ہیں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اگر یہ سڑکیں پایاں تکمیل تک پہنچ گئیں تو ان کا روز گار چھن جائے گا۔پر وہ یہ نہیں سوچتے کہ اتنی پر خطر راستے پر آئے دن جو جانی نقصان ہوتے ہیں کیا وہ آپ کے روزگار سے کم اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر ان کا یہ مطالبہ جائز بھی ہے تو ان کو اعتماد میں لیکر ان کو قانونی تحفظ دیا جا سکتا ہے کہ شوگران سے آگے سڑکیں بننے کے بعد عام گاڑی کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے صرف وہی مقامی لوگ اپنی جیپ سروس کو جاری رکھے پر سیاحوں کی جیبیں خالی کرنے کی بجائے ایک مناسب کرایہ نامہ طے کیا جائے تا کہ آئے روز جھگڑوں اور غنڈہ گردی سے نجات ملے۔
اس کے بعد دوسرا بڑا ایشو رہائش کا حصول ہے۔ اس میں سیاحوں کو اپنے کیمپنگ کی اجازت ہونی چاہئے۔ تا کہ ہوٹلوں کے ہوشربا اخراجات سے نجات ملے۔
تیسرا مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وہاں تک کیرج ایک مشکل کام ہےپر اتنا بھی نہیں کہ سیاحوں کے کپڑے اتار لئے جائیں۔ ناشتے میں انڈہ پراٹھا چائے اور ایک لاہوری چین کی کڑاہی بس یہ ادھر مینیو ہے لیکن کھانے کا بل ایک جرمانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا حل یہ کہ مقامی لوگوں کو پولٹری فارم یا گھروں کی حد تک مرغبانی کرنے کی ترغیب دی جائے تا کہ انڈہ مقامی ضروریات کے مطابق وافر مقدار میں موجود ہو۔ایک بات حیران کن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کیسے اپنا جال بچھایا ہے کہ ہر جگہ منرل واٹر کی بوتلیں آلو کے چپس اور سوفٹ ڈرنکس کی بھرمار کر رکھی ہے۔حالانکہ وہاں آلو اعلی۱ کوالٹی کا ہوتا ہے۔ چشموں کا پانی صاف شفاف منرل سے بھرپور ہوتا ہے وہاں کی انتظامیہ کیوں وہ چشموں کا پانی کمرشل لیول پر تیار نہیں کرنے دیتی۔ کیوں وہ مقامی آلو کو چپس میں تیار کر کے فروخت کرنے کی ترغیب نہیں دیتی ہے؟
مکئی کی پیداوار بہت زیادہ اور اعلی ذائقہ کی ہوتی ہے کیوں وہ اس طرز پر تیار نہیں کروائی جاتی جیسے باہر کے پیکٹ میں موجود مکئی کے دانے پوپ کارن بن جاتے ہیں اور لوگ خاص کر خواتین اور بچے بھر پور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو اس طرز کی مکئی پیدا کر کے باہر کے ملک بھیج کر معقول زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
ایک جگہ اور جانے کا اتفاق ہوا جسے پارس کے جنگل سے موسوم کیا جاتا ہے فیمیلز کے لئے پر سکون جگہ ہے پر دو گھنٹے کا سفر انتہائی پر خطر اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ادھر محسوس ایسا ہوا کہ ہم کسی پیالہ نما جگہ موجود ہیں۔ ایک صاف شفاف چشمہ بھی جاری تھا۔ خیال آیا کہ قدرتی ڈیم موجود ہے اگر کوئی متعلقہ کام کا ماہر اس کا وزٹ کرے تو وہی بات کوئی حتمی کر سکتا ہے۔ پر اگر کسی طرح وہ ڈیم بن جائے تو مقامی آبادی کو پن بجلی کی ترسیل اور زراعت کے لئے پانی کو کافی حد تک جمع کیا جا سکتا ہے۔
ہر جگہ ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ ہمارے پاس قدرت کے نظارے جابجا بکھرے ہوئے ہیں پر ہم دنیا کو دیکھانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ زمانہ مارکیٹنگ کا ہے۔ ہم اپنے سیاحتی مقامات کی صیح سے مارکیٹنگ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اور نہ ہی ہمارا اس میں کوئی واجدان نظر آتا ہے۔ بلاشبہ یہ یورپ کے کسی بھی پکنک پوائنٹ سے کم نہیں ہیں۔ پر سیاحت شاید ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
اسی لئے ہم اس پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ فلم ، ٹی وی ، کے سین کے لئے اتنے اچھے پوائنٹ ہیں ان لوگوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔
واپسی پر پیاز کی وافر مقدار دیکھی جو سیل نہ ہونے کی وجہ سے گلی سڑی پڑی تھی۔
اسی طرح اتنی ہریالی دیکھنے کے باوجود پھلوں کے درخت نا پید تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مقامی لوگوں خاص کر نوجوانوں کو پھلوں کے درخت لگانے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی جائے۔ جامن کے درخت اگر لگائیں جائیں تو بہت اچھی پیداوار مل سکتی ہے۔جڑی بوٹیاں جو کہ خود رو تھیں ان پر تحقیق کر کے ادویات کے لئے خام مال اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ان کو دوسرے ممالک میں بیچ کے ملک کی اکانومی کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
اگر گورنمنٹ سنجیدہ ہو تو وہاں کی انتظامیہ میں ایسے لوگ لائیں جائیں جو زرخیز دماغ کے مالک ہوں۔ کیونکہ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔جو جنون رکھتے ہوں کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔ روایتی بابوؤں کی وہاں کوئی گنجائش نہیں ۔ اسلام آباد اور فیصل آباد کو چار چاند لگانے والے بابوؤں کی ضرورت ہے جو سیاحت کی موجودہ ضروریات سے کماحقہ ہو آگاہ ہوں اور اپنے وجدان کو بروئے کار لاتے ہوئے انقلابی تبدیلیاں لائیں اور ہمیشہ کے لئے ایک اچھے یادگار پکنک پوائنٹ بنائیں تا کہ باہر سے بھی لوگ ان جگہوں پر آئیں، جہاں ہمارے ہاں پہلے ہی بہت کم ایکسپورٹ کےمواقع ہیں ہم ٹورازم جو کہ ایک بہت ہی منافع بخش انڈسٹری کی شکل دھار چکی ہے بہت سے ممالک صرف سیاحت کی مد سے خود کفیل ہو چکے ہیں۔ ہمیں بھی سنجیدگی سے اس انڈسٹری پر غوروفکر کرنی چاہئے۔تب ہی سری ، پائے کھانے اور سری ، پائے دیکھنے سے لطف اندوز ہو پائیں گے۔

سری،پائے” ایک تبصرہ

  1. You are in reality a good webmaster. The site loading velocity is incredible. It kind of feels that you are doing any distinctive trick. Also, the contents are masterwork. you’ve done a magnificent job in this matter! Similar here: sklep online and also here: Zakupy online

اپنا تبصرہ بھیجیں