نیا’’ عمرانی‘‘ معاہدہ

شرمیلا فاروقی
رکن سندھ اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو واپس ٹریک پر لانے کے لئےایک ایسے نئے عمرانی معاہدے ( سوشل کنٹریکٹ ) کی ضرورت ہے ، جس کے ذریعہ سارے اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل ہو سکیں ۔ عمران خان کی یہ تجویز خوش آئند ہے لیکن خود عمران خان اگر سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھنے سے اسی طرح انکار کرتے رہے تو نیا عمرانی معاہدہ کیسے ہو سکے گا ؟
اگر پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا انصاف کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تویہ حقیقت سامنے آئے گی کہ پاکستان کی سیاست کو گندا کرنے اور سیاسی اداروں کو کمزور کرنے میں سب سے زیادہ کردار عمران خان کا ہے ۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کوبلا ثبوت کرپٹ کہا اور ملک میں گالی کی سیاست کو رائج کیا ۔ اس سے غیر سیاسی قوتیں مضبوط ہوئیں ۔ عمران خان جن سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، انہوں نے پاکستان کے سیاسی اداروں کو مضبوط بنانے اور سویلین بالادستی کے لئےبہت کچھ کیا ہے ۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ عمران خان جن سیاسی قوتوں کو گالیاں دیتے ہیں ، انہوں نے آمرانہ قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔ انہوں نے سیاسی تحریکیں چلائی ہیں ۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اپنے پیٹھ پر کوڑے کھائے ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں نے تختۂ دار کا سامنا کیا ہے۔ عمران خان چونکہ بنیادی جمہوری دھارے کا حصہ نہیں رہے ہیں ، اس لئے انہیں اندازہ نہیں ہے کہ سیاسی اداروں خصوصاً پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے ، عوام کے حق حکمرانی کے حصول اور سویلین بالادستی کے لئےان کے سیاسی مخالفین کس طرح آگ اور خون کا دریا عبور کرکے ملک کو یہاں تک لے آئے ہیں کہ کسی طالع آزما کے لئے جمہوریت پر شب خون مارنے کے راستے بند ہو چکے ہیں ۔
جن سیاسی قوتوں کے ساتھ عمران خان مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں ، ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ 1973 ء کے دستور کی متفقہ منظوری ہے ۔ یہ سال دستور پاکستان کی سلور جوبلی کا سال ہے ۔ آج سے 50 سال قبل 10 اپریل 1973 ء کو پارلیمنٹ نے متفقہ دستور کی منظوری دی تھی اور 14 اپریل 1973 ء کو صدر پاکستان نے اس دستورکی توثیق کردی تھی ۔ آج پوری قوم انتہائی فخر کے ساتھ اپنے متفقہ آئین کی منظوری کی 50 سالہ تقریبات منا رہی ہے ۔ یہ 1973 ء کا دستور ہے ، جس نے پارلیمنٹ کو سپریم ( بالادست ) ادارہ بنایا ، جس نے پاکستان کو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام دیا اور جس نے سویلین بالادستی کو یقینی بنایا ۔
جن دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف عمران خان زہر اگلتے رہتے ہیں ، انہوں نے آج سے 17سال قبل 14 مئی 2006 ء کو لندن میں میثاق جمہوریت ( چارٹر آف ڈیمو کریسی ) کی تاریخی دستاویز پر دستخط کئے ۔ یہ وہ دستاویز ہے ، جس نے اقتدار پر فوج کے قبضے کو روکنے ، سیاست میں فوج کی مداخلت کو ختم کرنے ، سویلین بالادستی کو یقینی بنانے اور سیاسی اداروں کو مضبوط بنانے کا قابل عمل پروگرام دیا ۔ جس سیاسی قیاد ت کو عمران خان گالی دیتے ہیں ، انہوں نے آج سے 13 سال پہلے 8 اپریل 2010 ء کو 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی ۔ اس ترمیم کے ذریعے 1973 ء کے دستور کو نہ صرف اصل صورت میں بحال کیا بلکہ آمرانہ حکومتوں نے پارلیمنٹ سمیت سیاسی اداروں کے جو اختیارات سلب کئے تھے ، وہ بھی بحال کئے گئے ، سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے راستے بند کئے گئے اور میثاق جمہوریت کی روشنی میں سویلین بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ۔
یہی وجہ ہے کہ جن سیاسی قوتوں نے 1973 ء کا دستور دیا ، میثاق جمہوریت کیا اور 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی ، وہی سیاسی قوتیں نہ صرف پاکستان کی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے قہر و غضب کا نشانہ ہیں بلکہ عمران خان نے بھی انہی سیاسی قوتوں کو اپنے غیر سیاسی بیانیے کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ عمران خان نے جن سیاسی قوتوں کو کرپٹ اور ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینے کا جو بیانیہ اختیار کیا ہوا ہے ، وہ عمران خان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے ۔ سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے کا بیانیہ پاکستان کی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا روایتی بیانیہ ہے ،جو 1947 ء سے چلا آ رہا ہے ۔ اس بیانیے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حقیقی سیاست دانوں کو عوام کی نظروں میں گرا کر سیاست اور سیاسی اداروں کو کمزور کیا جائے تاکہ غیر سیاسی قوتیں اپنی من مانی کر سکیں ۔ تحریک پاکستان میں اپنا تن من دھن قربان کرنے والے انتہائی دیانت دار سیاست دانوں کو احتساب کے کالے قوانین ایبڈو ، پروڈا اور پوڈا کے ذریعے نااہل قرار دیا گیا ، انہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور ان کی تذلیل کی گئی ۔ اس سے نہ صرف سیاسی اور جمہوری تحریکیں کمزور ہوئیں بلکہ احتساب کے نظام کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کرکے اسے بھی کمزور کیا گیا ۔ احتساب کے ادارے آج تک سیاسی انتقام اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کےلئے استعمال ہو رہے ہیں ۔ عمران خان اسی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ وہ سیاست کو گالی بنا کر سیاسی اداروں کو کمزور کرنے کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں بعض اداروں نے بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرپٹ ہے یعنی انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ ان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے ۔
کسی بھی نئے عمرانی معاہدے کے لئے آگے بڑھنے سے قبل لازمی ہو گا کہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور کرپٹ کہنے کے اس بیانیے کو ترک کر دیں ، جو ان کا اپنا بیانیہ نہیں ہے اور جو سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کا پرانا اور بدنیتی پر مبنی بیانیہ ہے ۔ اس بیانیے کی بنیاد پر غیر سیاسی قوتیں عمران خان کو 18 ویں ترمیم ختم کرانے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد 1973ء کا دستور ایک ایسا عمرانی معاہدہ ہے ، جو نہ صرف سیاسی اداروں کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے بلکہ یہ ملک کی سلامتی اور بقا کا بھی ضامن ہے ۔ اس دستور یعنی عمرانی معاہدے میں ہر بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہے ۔ اگر عمران خان کسی جمہوری اور مہذب ملک میں ہوتے تو انہیں اپنے مخالفین کو بلا ثبوت چور اور ڈاکو کہنے پر کئی بار سزا ہو چکی ہوتی اور وہ سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر ہو جاتے ۔ ابھی حال ہی میں بھارت کی ایک عدالت نے بھارت کی خالق سیاسی جماعت کانگریس کے سیاسی رہنما کو اس لئے سزا دے دی کہ انہوں نے 2019 ء میں ایک انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے صرف یہ کہا تھا کہ یہ جو مودی ہے ، وہ چور ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ نے اس سزا پر راہول گاندھی کو لوک سبھا کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا ہے ۔ سیاسی اداروں اور سیاست کو مضبوط کرنا ہے اور اختیارات فوج سے سیاسی اداروں کو منتقل کرنا ہیں تو عمران خان کو اپنے بیانیے سے دستبردار ہو کر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا ہو گا ۔ 1973 ء کے دستور کی 18 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ حفاظت کا حلف لینا ہو گا ۔ میثاق جمہوریت کی روشنی میں آئین میں کچھ ایسی ترامیم کرنا ہوں گی ، جو وفاقی پارلیمانی دستور کی روح کے مطابق ہوں اور جن سے فوجی بغاوت (Military Coup ) ، عدالتی بغاوت ( Judicial Coup ) اور غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے سارے راستے بند کرنا ہوں گے ۔ عمران خان کو اپنا یہ بیانیہ بھی ترک کرنا ہو گا کہ فوج مداخلت کرکے انہیں دوبارہ اقتدار میں بٹھائے ۔ اگر عمران خان ایسا نہیں کر سکتے تو یہ حقیقی نیا عمرانی معاہدہ نہیں ہو گا بلکہ عمران خان کا یعنی’’ عمرانی‘‘ معاہدہ ہو گا ، جو ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا ۔ عمران خان کی مخالف سیاسی قوتیں سیاسی اداروں کی بالادستی اور انہیں مکمل بااختیار بنانے کے لئے بہت پہلے سے کام کر رہی ہیں اور قربانیاں دے رہی ہیں ۔ نئے عمرانی معاہدے کےلئے عمران خان کو بنیادی جمہوری دھارے میں آنا ہو گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں