4ستمبر”عالمی یوم حجاب

نئی صدی کے آغاز سے ہی اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے مےڈےاکے زور پر اسلام اور اسلام کی علامات خصوصاً حجاب کے خلاف متعصبانہ روےوں سے بھرپور گمراہ کن مہم شروع کردی گئی،بدقسمتی سے عالم اسلام کی طرف سے اسکاکافی و شافی جواب نہیں دےاگےا ،مگرشرق و غرب مےں بےدار ہو تی ہوئی نوجوان نسل نے اسلام مخالف زہریلے پروپیگنڈا کا اپنے عمل اور اسلام سے سچی محبت کا مظاہرہ کرکے بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی اےک واضح مثال بچیوں کے اندر حجاب کابڑھتاہوارحجان ہے۔اےک سفارتی تقرےب مےں اےک نام نہاد پاکستانی دانشور نے بڑے افسردہ لہجے مےں بتاےا کہ جب ہم ےونےورسٹی مےں پڑھتے تھے تو خال خال ہی کوئی حجاب والی لڑکی نظر آتی تھی مگر اب تو آپ نے اےک موثرمہم کے ذرےعے ہر طرف حجاب والی بچےوں کو پھےلادےاہے۔ہم نے جواب دےاکہ حجاب کوئی کسی کو زبردستی تو نہےں پہنا سکتااور ےہ حجاب ڈارون کا بندر تو نہےں ہے مگر جےسے اس کپڑے کے اےک گز کے ٹکڑے نے ترقی کی ہے دنےا مےںآج تک اس کی مثال نہےں ملتی۔پہلے اسے مسلم خواتےن کی ذہنی پسماندگی کی علامت قرار دےاجاتارہاکہ بےچاری برقعے والی عورت کو نہ عصر کا شعور ہے نہ جدےد دنےا کے تقاضوں سے باخبر ،نہ اسکے پاس تعلےم ہے ،نہ سماجی مرتبہ تو منہ نہ چھپائےںتو کےا کرےںاور گھروںمےں بند ہو کر نہ بےٹھےں توا ور کےاکرےں۔اگلے مرحلے پر حجاب کو ظلم وجبر کی علامت کے طور پر مشہور کےاگےاکہ مسلم دنےا کے مردظالم،کم نظر اور پسماندہ ہےں۔انھےں عورت کو قےد کرکے لطف آتاہے ۔پردے کو مرد کی بالادستی ،جبراور مردوں کے شاﺅ نزم کااستعارہ سمجھا گےا۔پھر حجاب کو اےک سےاسی بےان کے طور پر لےاگےا اور کہا گےاکہ ےہ معاملہ دراصل سےاسی اسلام کے پےرو کاروں کاابھاراہواہے جو خود انتہا پسندی کی علامت ہےں اور انھےں پردے جےسی انتہا پسندی پسند ہے لےکن دنےا کے بدلتے ہوئے حالات اور تنا ظر نے حجاب کو ثقافتی اور تہذےبی بےان مےں ڈھال دےا۔ لےکن اب ےہ اےک گز کا ٹکڑا آزادی کی توانا علامت او ر مسلم شناخت کا افتخار بن کر ابھر رہاہے۔پسماندگی کی علامت سے آزادی کی علامت تک کا حجاب کا ےہ سفر اور ارتقاءبہت حےرت انگےز ہے ۔ےہ اکےسوےں صدی ہے۔ہم حضور نبی کرےمﷺ کی لائی ہو ئی آخری آسمانی ہداےت کی طرف لوٹ رہے ہےں۔جنھوں نے ہمےں ان طرح طرح کی غلاظتوں کے بوجھ سے نجات دی جسے زمانے نے ہمارے اوپر لاد دےا تھا او ر ان زنجےروں سے آزاد کےاجنہوں نے طوق کی طرح ہمیں جکڑ لےاتھا۔حضور نبی کرےمﷺ کی ذاتی زندگی مےں عورت کا کردار اتنا مرکزی اور متحرک ہے کہ ان پر اےک عرب شاعر طنزےہ کہتاہے کہ ” محمدﷺ جب سے آئے عورت ہی عورت ہو نے لگی ہے۔“انھوں نے عورت کو جو کہ زندہ درگور ہورہی تھی کو خوشبو اور نماز کے ساتھ ےاد کےا اور اس ایک جملے کی چھوٹی سی حدیث نے عورت اور مرد کے تعلق کی معنوےت اور تقدس کوبہت خوبصورت طرےقے سے آشکا ر کےاہے ۔آپ زندگی کے کسی لمحے مےں بھی اپنی والدہ بی بی آمنہ کو فراموش نہ کرسکے کےونکہ والد کو تو آپ ﷺنے دےکھا ہی نہ تھا۔اپنی رضاعی والدہ بی بی حلےمہؓ کے ہمےشہ احسان مند رہے ۔رضاعی والد کو ہم آج کم ہی جانتے ہوتے ہےں۔رضاعی بہن حضرت شےماؓ اےک دفعہ آئےں تو انکے لےے اپنی چادر بچھادی ۔رضاعی بھائی بھی تھے مگر ہم ان سے لا علم ہی رہتے ہیں۔حضرت خدےجہ ؓ پہلی مسلمان ہو نے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ آپ ﷺکی زندگی مےں اےسے شامل رہےں کہ آپ ﷺ ہر وقت انھےں ےاد کرتے رہے او ر حضرت عائشہؓ کو کہنا پڑا کہ مجھے حضرت خدےجہ ؓ پر رشک آتاہے ۔حضرت عائشہؓ کو اتنا زےادہ لاڈ پےار سے رکھا کہ حےرت ہوتی ہے اور انکی زندگی وفا اور محبت کی لازوال داستان دکھائی دےتی ہے۔حضرت فاطمہؓ سے تعلق سے تو تارےخ بھری پڑی ہے اور آپ نسل بھی آپ کی بےٹی سے ہی چلی ۔لےکن آج امت مسلمہ بالعموم اور مسلمان عورت بالخصوص کس دورا ہے پر کھڑے ہےں۔اےک طرف مغربی تہذےب وثقافت کا سےلاب ہے جو وقت کی ٹےکنالوجی کے مﺅثر ترےن آلا ت سے آراستہ ہو کر ہمےں اپنے دےن واےمان اور اپنی تارےخ ورواےت سے کاٹ کر مغربی تہذےب کے سانچے مےں ڈھال دےنا چاہتاہے ۔اور دنیوی ترقی اور ثروت کے طلسم سے ہماری آنکھوں کو خےرہ کرنے مےں مصروف ہے تو دوسری طرف قدامت اور رواےت کے کچھ علمبردار بھی اپنے خلوص کے باوجود رسم ورواج کو اقدار اور اصول کا درجہ دے کر وقت کے حقےقی تقاضوں سے مکمل صرف نظر کررہے ہےں۔ زمانے کے چےلنج کا مقابلہ کرنے کی بجائے ہم ماضی کے حصار مےں محصور ہوجانے مےںعافےت دےکھ رہے ہےں۔ےہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے نہےں ہےں۔نہ ہم نے اپنی اقدارو رواےات پر کوئی سمجھوتہ کرنا ہے اورنہ وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کرناہے ۔مغلوبےت اور محکومےت سے بچنے کا واحد راستہ وہی ہے ،جو نبی اکرمﷺ نے دکھاےا ہے ، جسے صلحائے امت نے اپنے اپنے دور مےں کامےابی سے آزماےاہے ۔ےعنی اصول واقدار کے سلسلے مےں مکمل استقامت اور ذرائع ا وروسائل کے باب مےں ضروری لچک او ر وسعت ۔ستمبر 2003ءمےں فرانس نے حجاب پر پابندی کے لےے قانون سازی کی امت مسلمہ کے علمائے کرام نے علامہ ےوسف القرضاوی کی قےادت مےں پہلی دفعہ 4ستمبر2004ءکو عالمی ےوم حجاب منانے کا اعلان کےا۔پاکستان سے محترم قاضی حسےن احمدؒ اس تحرےک کے علمبردار بنے ،مسلمان خواتےن کی اےک بڑی عالمی تنظےم انٹرنےشنل مسلم وےمن ےونےن نے اسے 2004ءسے ہی عالمی سطح پر منانے کی رواےت برقرار رکھی اور جماعت اسلامی حلقہ خواتےن کا اعزاز ہے کہ وہ اپنے کارکن مےں قائدانہ صلاحےتوں کی آبےاری کرتی ہے ۔اس وقت اس عالمی تنظےم کی مرکزی اور اےشےائی رےجن کی صدارت ہماری دو کارکنان بہنوں ڈاکڑ کوثر فردوس صاحبہ اور ڈاکٹر سمےحہ راحےل قاضی صاحبہ کے پاس ہے ۔اور وہ اس عالمی تحرےک حجاب کے ذرےعے احےائے تہذےب ا سلامی کی مہم چلارہی ہےں۔ حجاب محض برقعے ےاچادر کانام نہےں اور ےہ محض عورت سے بھی منسوب نہےں بلکہ ےہ اےک مکمل نظام اخلاق اور نظام عفت وعصمت ہے جوکہ مردوں کو بھی اتنا ہی محفوظ رکھتاہے جتنا عورت کو اور اسکا خطاب مردوں کو بھی ہے اور عورت کو بھی ۔اس تحریک کے ذرےعے سے ہم اپنی تہذےب سے اپنے ٹوٹتے ہوئے رشتوں کو بحال کرنے کی کوشش کرےں گے ۔مےڈےا نے ہمارا پہلے بھی بہت ساتھ
دےاہے ہم اب بھی ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ تہذیب اسلامی کے احیاءکے اس مشترکہ کام میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم اپنی کھوئی اور گمشدہ متاع عزت و وقار کو بازےاب کراسکےں۔
آپ جہاں اور جس مقام پر بھی ہےں معاشرے کو استحکام بخشنے کی خاطر اور اپنی نسل نو کو اخلاقی طور پر کامےاب وکامران بنانے کے لےے اپنا کردار ادا کرےں۔آپ کالم نگار ہےں تو اےک کالم لکھ کر اپنا فرض پورا کرےں۔اگر ٹی وی چےنل سے وابستہ ہےں تو اےک پروگرام نشرکر کے اپنا حصہ اداکرےں۔اگر آپ پروڈےوسر ہےں اےک دستاوےزی فلم،کوئی ترانہ بنا کر اس مہم کا حصہ بنےں۔اگر آپ استاد ہےں تو اپنی زبان اور بےان سے اس دن کی اہمےت اجاگر کرےں اور ہر سطح پر معاشرے کے استحکام اور عورت کو اسکی نسوانےت پر فخر کرنے اور اسے تحفظ کااحساس دلائےں

4ستمبر”عالمی یوم حجاب” ایک تبصرہ

  1. You are in reality a just right webmaster. This website loading speed is incredible. It kind of feels that you’re doing any unique trick. In addition, the contents are masterwork. you’ve performed a wonderful job on this matter! Similar here: novarique.top and also here: Najtańszy sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں