دوسرا ذائقہ

نہ ابلا پری ہے،
نہ وہ نازنیں ہے،
نہ ہی زیب و زینت کی رسیا کوئی نار ہے
ایسی پارینہ عورات کی ہڈیاں گل چکے بھی زمانے ہوئے
(آدمی ہر قدیمی، مثالی تصوّر کو ٹُھکرا رہا ہے
اگرچہ یہ تردیدِ کل ایک کارِ جنوں ہے،
مگر ہم ابھی اپنی تسلیم مندی کی خوئے ودیعت سے بدلہ چُکانے پہ معمور ہیں)
خیر میں کہہ رہا تھا
کہ نسوانیت اِک نمک ہے
نمک اپنی مقدار میں ذائقے سے موافق ہی پُرلطف ہے
آدمی کے لیے ایک چُٹکی،
مگر ڈھور ڈنگر کی کھرلی میں ڈَلے کا ڈَلا بھی کم ہے
گئے دن، کہ جب یہ زن و مرد کا شاملاتی علاقہ بےآباد تھا
مرد ایک مرد تھا
اور زن اِک سراپا نمک تھی
وہ ہر دو رویوں سے بھر پور انسان ہے
وگرنہ کہاں شام چائے کی پیالی پہ میں
ذائقہ منہ کا نمکین کرنے سِوا دوسری بات کرتا
مجھے زندگانی کی لایعنیت
اِن سماجی رویوں کی پیچیدگی
موسموں میں تفاوت کے اثرات
اور شاعری کے مسائل وغیرہ پہ اُس کی
فراست نے بھی مبتلا کر رکھا ہے
نمک کے سِوا میں نے اِک دوسرا ذائقہ چکھ رکھا ہے!

(سرمد سروش)

اپنا تبصرہ بھیجیں