‏نہ ترا خُدا کوئی اور ہے

‏نہ ترا خُدا کوئی اور ہے نہ مرا خُدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا ، یہ معاملہ کوئی اور ہے

تیرا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی
مرے درجہ وار شہید ہیں ، مری کربلا کوئی اور ہے

کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے ، کئی نقش تھے جو بگڑ گئے
کئی شہر تھے جو اجڑ گئے ، ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے

تمہی قاتلوں کے گواہ تھے ،تمہی شاہ و میر و سپاہ تھے
مگر آج دیکھ لو وقت نے ، کِیا فیصلہ کوئی اور ہے

نہ تھا جس کو خانہ ء خاک یاد ، ہُوا نذرِ آتشِ ابر و باد
کہ ہر ایک دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے

ہوئے خاک دُھول تو پھر کُھلا،یہی بامراد ہے قافلہ
وہ کہاں گئے جنہیں زُعم تھا کہ رہ ِ وفا کوئی اور ہے

یہ ہے ربط اصل سے اصل کا ، نہیں ختم سلسلہ وصل کا
جو گراہے شاخ سے گُل کہیں تو وہیں کھِلا کوئی اور ہے

وہ عجیب منظرِ خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور ، کبھی یوں لگا کوئی اور ہے

کوئی ہے تو سامنے لائیے ،کوئی ہے تو شکل دکھائیے
ظفرؔ آپ خود ہی بتائیے ،مرے یار سا کوئی اور ہے

صابر ظفر

اپنا تبصرہ بھیجیں