مقصدِ عزائے سیّد الشهداء عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ

عزاداریِ سیّد الشهداء ہماری شہہ رگ حیات ہے۔

اس کا مقصدِ اول اُس ظلم و بربریت کی تشہیر ہے جو 10 محرم 61 ہجری میں کربلا کی سر زمین پر خانوادۂِ رسالت پر ڈھایا گیا۔ یہ ظلم توہینِ رسالت کی پہلی کڑی ہے۔ اگر اِس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج اُس دور کا مسلمان بلند کرتا اور خاموش نہ رہتا، تو تاقیامت کسی بدخصال میں یہ جُرات نہ پیدا ہوتی کہ وہ تضحیکِ رسالت کرے۔ یہ کلمہ گویوں نے غیر مذاہب کے لوگوں کو راہ دکھائی تو آج وہ پے در پے توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
عزاداری کا دوسرا بڑا مقصد اُس ظلم کو بے نقاب کیے رکھنا ہے، جو شامِ غریباں ناموسِ رسالت پر شہادتِ امام حسین صلوٰۃ کے بعد کیا گیا۔ خیامِ حسینی کو نذرِ آتش کیا گیا، نبی ﷺ زادیوں کے سروں سے ردائیں کھینچیں گئیں۔ یہ ظلم یہیں پر تمام نہیں ہوا بلکہ آلِ نبی ﷺ اولادِ علی صلوٰۃ اور ان کی بہو بیٹیوں کو رسن بستہ اور بے ردا کرکے، بے کجاوا اونٹوں پر بٹھا کر سفرِ شام اختیار کیا گیا۔ مجمعِ عام اور دربارِ شام میں ان نبی زادیوں کو لجایا گیا۔ غیرتِ مسلم اس وقت بھی بیدار نہ ہوئی جب ان بیبیوں کو نصرانیوں اور یہودیوں کی بستی میں لے جایا گیا اور ان غیر مسلم لوگوں نے ان کا احترام کیا اور کسی نے ظلم نہ کیا۔ صد افسوس، مسلمانوں کی ہر بستی میں اِن کو پتھر بھی مارے گئے، کہیں گرم پانی پھینکا گیا اور کبھی جلتے ہوئے کپڑے ان کی جانب پھینکے گئے دیگر ظلم کی داستان ابھی بہت ہے۔
ان ایامِ عزاداری کا تیسرا مقصدِ کبیر، ادائیگیِ اجرِ رسالت ہے۔
ان مجالسِ عزا کا انعقاد اِس تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ضمیر فروش مسلمان مورّخ اسے تاریخ سے مٹا نہ دے۔

یاد رکھنا تحفظِ عزاداری بقائے دین و شریعت ہے۔
؀اسلام کی بقأ ہی عطائے حسین ہے
ختم الرُّسل کی نعت ثنائے حسین ہے
سر سبز ہے جو آج شریعت رسول کی
محکم اساسِ دین عزائے حسین ہے

ہم قربانئِ حسین صلوٰۃ کو زندہ رکھنے کیلئے اہتمامِ عزاداریِ حسین کرتے ہیں۔ ہم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں والیِ کربلا کو، جس نے اپنا سارا کنبہ، یاور و انصار سبھی صغیر و کبیر تحفّظِ شریعتِ محمدی کیلئے قربان کردیئے۔ ظالم حکمران کی بیعت نہ کی اور حرام و حلال اور رشتوں کے تقّدس کو پامالی سے بچا لیا۔
اگر عزاداری سے آپ کو کوئی بیزار نظر آئے تو سمجھ لیجئے گا یہ عدوۓ شریعتِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ جس نے لبادۂِ اسلام زیبِ تن کیا ہوا ہے۔ یہ ظاہری مسلم ہے اور باطنی طور پر یہ پیروکار ہے فکرِ یزید (لعنہ اللہ) کا اور حرام حلال کی تمیز سے عاری ہے۔
عزاداری کی بدولت ہم زندہ ہیں۔ ہم حسین ابنِ علی ابنِ ابو طالب(عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کو محسنِ انسانیت مانتے ہیں۔ حسین ہر صاحبِ ضمیر انسان کا محسن ہے خواہ وہ انسان کسی بھی مسلک
سے تعلق رکھتا ہو۔
عزاداریِ حسین(عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) برپا کر کے ہم زمانے کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اے انسان اِس عظیم ظلم پر تو خاموش کیوں ہے ؟ تو سراپا احتجاج کیوں نہیں بنتا؟ تیرے فکر و شعور کی زبان گُنگ کیوں ہے؟ یاد رکھ وہ ربُّ العزت نہ ظالموں کو پسندکرتا ہے اور نہ ہی ظلم پر خاموش رہنے والوں کو۔ حضرت صالح(عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ)کی قوم کی خاموشی پیشِ نظر رہے۔ آ شریکِ عزاداری ہو اور ظالم سے نفرت کا اظہار کر اور عملی ثبوت دے کہ تیرا تعلق ظالموں سے نہیں ہے اور تو مظلوموں کا طرفدار ہے۔
؀عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبّت کی جزا مانگے گا
عزاداریِ امام حسین (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) ہماری موبائل یونیورسٹی ہے اور ہم عزاداری کے پلیٹ فارم سے تعلیماتِ محمد(صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ )کا پرچار کرتے ہیں۔
؀توحید کا پیام عزادارئِ حسین
ہے درس گاہِ عام عزادرئِ حسین
جو جادۂِ رسول(ص) پہ ہیں گامزن وہی
کرتے ہیں صبح و شام عزادرئِ حسین

آئیں فروغِ عزا میں ہمارے حصّہ دار بن کر ہر ظلم کے خلاف ایک مضبوط قلعہ بن جائیں اور ظالم کیلۓ ذولفقارِ حیدری بن جائیں۔

نثر کے بعد چندشاعروں کے اشعار مقصدِ عزاداری کے حوالے سے:

؀ فکرِ حُر ہوتی ہے بیدار عزاداری سے
آدمی بنتاہے مُختار عزاداری سے

قرض ہم اجرِ رسالت کا ادا کرتے ہیں
اِس موّدت کا ہےاظہار عزاداری سے

؀ سینے پہ ہاتھ مار کے کہہ دے جو یاحسین
وہ ناصرانِ شاہ میں شامل دکھائی دے
کچھ دیر فرض کیجئے اہلِ عزا نہ ہوں
سارا جہاں حسین کا قاتل دکھائی دے

؀ہم تجھ کو بھول جائیں یہ مشکل ہے اے حسین
تیری ولاء تو خون میں شامل ہے اے حسین
مصداق اور کون ہے ذبحِ عظیم کا
تو ہی تو اس مقام کے قابل ہے اے حسین

مقصدِ عزائے سیّد الشهداء عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ” ایک تبصرہ

  1. Wow, fantastic blog format! How lengthy have you been running a blog for? you make running a blog look easy. The total glance of your website is magnificent, as neatly as the content material! You can see similar here sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں