پرنسپل صاحبہ

لاہور کے سب سے بڑے کالج کی پہلی خاتون پرنسپل کو سائیکل پر اپنے تعلیمی ادارے آتا دیکھ کر کبھی نہ بھولنے والے “طرح دار” اخبار نویس دوست جناب تنویر عباس نقوی کا “کاٹ دار” جملہ یاد آگیا۔۔۔۔۔۔۔وہ سید قبیلے کے “منفرد آدمی” تھے۔۔۔۔ڈیڑھ دہائی پہلے کی بات ہے کہ وہ ایک “منفرد قومی” اخبار کے ایڈیٹر بنے تو میں نے کہا کہ آپ ایک بار پھر ایڈیٹر ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔رکشے پر دفتر آتے ہیں توعجیب سا لگتا ہے۔۔۔۔۔ اب گاڑی لے لیں۔۔۔۔کہنے لگے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟میں پیدل بھی ایڈیٹر ہوں۔۔۔۔۔!!!
احساس برتری یا احساس کمتری کا “عارضہ”لاحق نہ ہو تو کتاب و قلم کو “محبوب” رکھنے والے کسی بھی کرم یافتہ شخص کا یہی “زاویہ نگاہ” ہے۔۔۔۔۔۔۔ایسے لوگ “چہرے مہرے” سے “دین دار” دکھائی دیں نہ دیں لیکن “دل و دماغ”سے “دنیا دار” ہرگز نہیں ہوتے۔۔۔۔در اصل یہی لوگ “دیندار”ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ہوس زر کی”تاریک وادیوں”میں”ٹھوکریں”کھاتے لوگوں کو ایسے “رہبر لوگ”ہی “جگنو”کی طرح راہ سجھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔احساس برتری یا کم تری اتنا بڑا “سیاپا” ہے کہ اچھا بھلا آدمی چکرا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک”کروڑ پتی دوست” کے مکروہ الفاظ آج بھی اذیت دیتے ہیں۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ نے لاہور کی کچی آبادی، جہاں سیوریج نہیں” غرقی سسٹم ‘چلتا ہے، اتنا عالی شان گھر بنا لیا۔۔۔۔اچھا ہوتا کسی اچھے علاقے میں اتنے پیسے لگاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے منطق پیش کی کہ ادھر زیادہ تر غریب لوگ ہیں کم از کم میری “عزت”تو کرینگے۔۔۔۔۔۔۔ ان علاقوں میں تو کوئی مجھ سے سلام کوئی نہیں لے گا۔۔۔۔۔موصوف ایک مرتبہ بیرون ملک سے سکائپ پر گفتگو کرتے بائیں ہاتھ کو بار بار یوں سامنے کرتے جیسا بازو بازو ٹوٹا ہو۔۔۔۔میں بھانپ گیا کہ وہ مجھے” مہنگی گھڑی”,دکھانا چاہتے ہیں جیسے “چھچھوری عورتیں” انگوٹھی والی انگلی گھما گھما کر بات کرتی ہیں……میں نے کہا بھیا کیا بازو کو چوٹ لگی ہے تو شرمندہ سے ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن گاڑی میں جا رہے تھے تو اچانک ہزار دانے کی تسبیح نکال ڈالی اور کہنے لگے ک سفر میں تسبیح “میری عادت” ہے۔۔۔۔۔۔چند ایسی اور عجیب و غریب حرکات و سکنات دیکھیں تو میں” حلقہ یار” سے بھاگ نکلا……
لاہور کے سب بڑے کالج کی خاتون پرنسپل کی سادگی دیکھ کر مجھے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج شکرگڑھ میں اپنے بیالوجی کے استاد گرامی جناب پروفیسر مقصود احمد بھی شدت سے یاد آئے۔۔۔۔میرے بس میں ہوتا تو “لیجنڈ آف شکرگڑھ”کو سونے کا تاج پہناتا اور کچھ نہیں تو کالج کا سائنس ڈیپارٹمنٹ ان سے منسوب کر دیتا۔۔۔۔۔پنجابی میں اردو کا “عشق بھرا لیکچر” دینے والے ہمارے منفرد استاد جناب پروفیسر جمیل پروفیسر مقصود صاحب اور پروفیسر مسعود کے بارے کہا کرتے تھے کہ یہ دونوں بھائی انسان نہیں فرشتے ہیں۔۔۔۔۔وہ “گواہی”دیتے کہ یہ اتنے ایماندار لوگ ہیں کہ اگر انہیں گھر جا کر پتہ چلے کہ کالج سے ایک تنکا بھی کپڑوں سے چمٹ کرآگیا ہے تو اسی وقت اسے واپس کالج میں چھوڑ کر ہی دم لیتے ہیں…….انیس سو ترانوے سے ستانوے کالج کے چار سالہ دور میں پروفیسر مقصود کو سادگی میں ہی”ملبوس” دیکھا…..ڈاکخانے والی گلی کے سادہ گھر سے کسی با حیا خاتون کی طرح گردن جھکائے “خراماں خراماں” کالج آتے۔۔۔۔۔چار سال میں ان کے تن پر ایک دو دھیمے رنگ کے سوٹ اور سردیوں میں پنک کلر کا ہاتھ سے بنا اکلوتا سویٹر ہی دیکھا۔۔۔۔سفید رنگ اور سفید بالوں کیساتھ سادہ لباس کا یہ” کمبی نیشن” ان کی شخصیت کو پھول کی طرح نکھار دیتا…..۔..نفاست ایسی کہ طلبا دیکھتے تو دیکھتے ہی رہ جاتے……۔۔۔۔کم گو مگر یک سو…..سیدھے کلاس میں آتے….ایک منٹ کم نہ ایک منٹ زیادہ ہوتا…..زوالوجی سے متعلقہ ابواب پڑھاتے تو مزہ آ جاتا……بلیک بورڈ پر خوب صورت ہینڈ رائیٹنگ سے موتی بکھیر دیتے…….اس زمانے میں کالج کے تمام نوٹسز اور ڈیٹ شیٹس بھی انہی کے قلم کا شاہکار ہوا کرتیں…ضرورت پڑنے پر کیمسٹری اور انگریزی پڑھاتے تو لگتا کہ ان سے اچھے یہ مضامین کوئی پڑھا ہی نہیں سکتا…….وطن عزیز کے آخری مشرقی شہر میں جب چھانگے مانگے پروفیسرز بھی “سائنس کے نام” پر خوب پیسے کما رہے تھے تو پنجاب میں سائنس کی دنیا کے یہ ٹاپ ٹین درویش کالج کے بعد سادہ سے گھر میں گوشہ نشین ہو جاتے…..لڑکیوں کو بڑے اصرار کے بعد اس شرط پر پڑھا دیتے کہ کوئی فیس نہیں لیں گے…….دونوں بھائی ٹیوشن کے بجائے کالج میں چھٹی کے بعد “زیرو پیریڈ” کے نام سے مفت پڑھاتے…..پروفیسر مقصود کے بھائی ڈاکٹر دائود کے بارےکہا جاتا ہے کہ وہ سٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کر پڑھا کرتے….مسعود صاحب تو خود بتاتے کہ کیسے ایک کلاس کے بعدپیسے نہ ہونے پر وقفہ کیا کرتے۔۔۔۔ سب بھائیوں نے ڈاکٹر اور پروفیسر بن کر بھی پیسہ جمع نہ کیا بلکہ علم بانٹا اور بلاتفریق بانٹا…..بھلا تقوی اور کیا ہوتا اور ولی اور کسے کہتے ہیں…..میں تو کہتا ہوں یہ ولیوں کا خاندان ہے.!!!
بات خاتون پرنسپل سے چلی اور دور نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔گورنمنٹ محمڈن اینگلو اورینٹئل کالج (ایم اے او کالج) کا شمار لاہور کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ 1933 میں قائم ہونے والے اس کالج میں کبھی کوئی خاتون بطور پرنسپل تعینات نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔محترمہ ڈاکٹر عالیہ رحمان خان وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے دہائیوں سے چلی آ رہی اس روایت کے برعکس ادارے میں پہلی خاتون پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عالیہ رحمان نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز، جامعہ پنجاب سے ایم فل جبکہ آسٹریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان کی اس وقت پورے پاکستان میں دھوم ہے کہ وہ گاڑی اور ڈرائیور کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود اپنے گھر سے کالج تک کا سفر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔۔۔۔انہوں نے سائیکل سواری کے بارے میں بتایا کہ ان کے والد نے بچپن میں ہی انہیں سائیکل چلانا سکھا دی تھی۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا:جب میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آسٹریا گئی تو میری یونیورسٹی اور گھر کے درمیان پانچ کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔…. پیدل جانے میں وقت زیادہ ضائع ہو جاتا تھا۔…. ٹرام سروس استعمال کرنے کے دوران اپنے اردگرد کی خوبصورتی سے محظوظ نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔ اس لیے میں نے سائیکل خریدی اور یونیورسٹی آنے جانے کے لیے اس کا استعمال شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔تب سے مجھے سائیکل کی عادت ہو گئی ہے اور یہ میری زندگی کا اہم ترین حصہ بن گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بتایا:میں 2005 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آگئی اور 2008 میں ایم اے او کالج میں ملازمت شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس پاس ذاتی گاڑی بھی تھی لیکن میں صرف دو کلاسز لینے کے لیے کالج آیا کرتی تھی۔۔۔۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ صرف دو کلاسز کے لیے پوری گاڑی لے جانا مناسب نہیں۔۔۔۔پھر میں نے کافی سوچ بچار کے بعد سائیکل نکالی۔۔۔۔اس کی جھاڑ پونچھ کی اور کالج چل دی۔۔۔۔۔میں گاڑی کے مقابلے میں سائیکل پر وقت سے پہلے کالج پہنچی تھی۔۔۔۔۔۔تب سے لے کر آج تک آمدورفت کے لیے سائیکل کا استعمال کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر کے لیے سودا سلف لانا ہو یا ڈی ایچ اے سے ٹھوکر نیاز بیگ اپنی بہن کے ہاں جانا ہو، سائیکل پر یہ سارا سفر طے کرنا پسند کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ مَیں کالج کی بچیوں کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ بھی سائیکل پر آسکتی ہیں بجائے کسی کے سہارے آنے یا پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے کالج تاخیر سے پہنچنے کے، اس سے وہ خودمختار ہوں گی۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عالیہ رحمان نے بتایا کہ کئی اساتذہ نے بھی مجھ سے پوچھ کر سائیکل خرید لی ہے۔۔۔۔۔۔۔امید ہے میرے سائیکل پر کالج آنے جانے سے باقی فیکلٹی اور طلبہ بھی سائیکل کا استعمال شروع کردیں گے۔۔۔۔اس سے پیسوں کی بچت بھی ہوگی اور لاہور کی فضائی آلودگی بھی کم ہوگی۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ لوگ مجھے سائیکل چلاتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔۔خواتین شاباش دیتی ہیں اور بچے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔۔۔۔کمرشل ازم کے اس “بھوکے ننگے دور” میں محترمہ عالیہ خان ایسے اساتذہ کرام کسی نعمت سے کم نہیں۔۔۔انہوں نے محکمہ تعلیم ہی نہیں ملک کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا ہے۔۔۔۔۔پرنسپل صاحبہ ہوں۔۔۔۔پروفیسر صاحب یا جناب تنویر عباس نقوی ہوں۔۔۔ایسے “نایاب لوگ” ہی معاشروں کے “رول ماڈل” ٹھہرتے ہیں۔۔۔۔۔باقی سب ‘ماڈلنگ” ہے اور “گلمیر”کی چکاچوند کب تک رہتی ہے؟؟؟

پرنسپل صاحبہ” ایک تبصرہ

  1. You’re truly a good webmaster. The web site loading pace is incredible. It kind of feels that you’re doing any distinctive trick. In addition, the contents are masterpiece. you have performed a magnificent job on this matter! Similar here: dobry sklep and also here: Najlepszy sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں