طاقت

قانون فطرت ہے کہ کسی بھی چیز کو جتنا آپ دبائیں گے اس میں اتنی ہی شدت عود کر آئے گی۔تخلیق کائنات پر غور کریں تو طاقت اور توازن کا محور رب کائنات ہے۔ آیت الکرسی میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ کہ سب اسی کو زیبا ہے۔
انسان تو خسارہ میں ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ حیوانات کے اندر بھی قوت اور طاقت کے حصول کی کشمکش چلتی رہتی ہے۔ اکثر حیوانات کی ڈاکو منٹری میں بتایا جاتا کہ کیسے طاقت ور جانور اپنا آپ منواتا ہے۔ کہانیوں میں شیر کی مثال دی جاتی ہے۔ کہ اس کو جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔
مطلب طاقت کا حصول ایک جبلت کے تحت کام کرتا ہے۔نفسیات اس کو ایک اور نظر سے دیکھتی ہے کہ جو اندر سے جتنا زیادہ خوف زدہ ہوتا ہے وہ اپنے اس خوف کو چھپانے کے لئے مصنوعی طاقت کا لبادہ اوڈھ لیتا ہے۔
ممالک کی سطح پر دیکھیں تومختلف ممالک کی طرف سےطاقت ، قوت کا اظُہار کیا جاتا ہے تا کہ دوسروں پر اپنی دھاک جمائی جا سکے۔
پرانے وقتوں میں ڈاکوؤں کے سردار کا چناؤ بھی اسی قانون کے تحت کیا جاتا تھا کہ جو ڈاکو کسی سردار کو مار دیتا تھا تو دوسرے لوگ اس کو اپنا سردار چن لیتے تھے۔
یہی قانون بادشاہوں کی سلطنت میں چلتا تھا۔
موجودہ مہذب معاشرہ میں بھی قانون وہی چل رہے ہیں۔ کہ جس کے پاس جو طاقت یا قوت حاصل ہے وہ دوسروں کو زیر کرنے پر تلا ہوا ہے۔اس کا اندر کا خوف اس کو اس بات پر آمادہ کر رہا ہے۔ کہ اگر اب کمزوری دیکھا دی تو سمجھو دہائیوں کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
پر اس لائن پر کوئی سوچ بچار کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اگر کسی کو کوئی عہدہ ملتا ہے تو وہ اصل میں رب کی طرف سے اس کے لئے اتنا بڑا امتحان ہے جتنا بڑا عہدہ ملا ہو۔جب ہم صرف اس کو اپنی ذات تک محدود کر لیتے ہیں تب خرابی شروع ہوتی ہے۔خرابی شروع کیسے ہوتی ہے جب طاقت ملتی ہے تو انسان تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور رب کو تکبر پسند نہیں ہے۔
سورت لقمان میں ارشاد باری ہے”اور نہ لوگوں کے لئے اپنا منہ پھیرو نہ زمین پر اترا کر چلو بے شک رب ہر تکبر کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے”
فی زمانہ ہم طاقت کے حصول کے بعد اس میں توازن برقرار نہیں رکھتے جس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔
چاہے وہ ساس بہو کا جھگڑا ہو، ماں اور بیٹے کے درمیان رسہ کشی ، کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ تھوڑا سا اگر رشتوں میں توازن قائم رکھا جائے تو زندگی سہل ہو جاتی ہے۔ دوسروں کو تھوڑی سی سپیس دینا سیکھیئے ۔زندگی کمپرومائیزز کا نام ہے۔ وہی درخت زمین پر قائم رہتے ہیں جو آندھی کے وقت جھک جایا کرتے ہیں۔ جو اکڑ کر کھڑے رہتے ہیں وہی زمین سے اکھڑ جایا کرتے ہیں۔ اور وہ دوسروں کا ایندھن کا سامان بن جایا کرتے ہیں۔
طاقت قوت کا سر چشمہ صرف اور صرف رب کی ذات ہے اور وہ اسی کو جچتا ہے۔ زمین پر فرعون بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں