پاکستان ۔ ایران ریلوے لائین

جب کوئٹہ چمن ریلوے لائین کا منصوبہ بنا تھا تو انہی دنوں اس میں کوئٹہ سے تفتان اور پھر آگے زاہدان کی پٹری بھی شامل تھی، جب ‎حکومت پاکستان نے ریل کی ان بڑی اور اہم پٹریوں کو باقاعدہ شناخت دینے کے لیے ان کو نام اور ‎نمبروں سے پکارنے کا فیصلہ کیا تو ایران کے اندر جاتی ہوئی اس تنہا اور بےآباد سی لائین کو ایک خود مختار مرکزی لائین کا درجہ دے کر ایم ایل 4 کے نام سے پکارا جانے لگا ۔
ابھی تو اس خطے کے سیاسی حالات کی بدولت یہ لائین قریب المرگ ہے لیکن مستقبل میں ایک اچھی آس پر یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ جب سی پیک کے منصوبے پایَہ تکمیل کوپہنچیں گے تو ان میں اس لائین کا بڑا کردار ہو گا اور یہ ایران اور ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ تک جا ‎پہنچےگی ۔
اس سے پہلے کہ ہم اس لائین پر اپنی گاڑی دوڑائیں ، اس کی تھوڑی سی تاریخ بھی سمجھ لی جائے۔ یہ لائین بھی برطانوی حکومت نے بنیادی طور پر دفاعی نقطہ نظر سے بنائی تھی ۔ اس وقت چونکہ ایران کا کچھ حصہ بھی برطانیہ کے ہی زیر اثر تھا اس لیے حکومت کو یہ خطرہ بھی رہتا تھا کہ سوویت یونین یا کسی اور ملک کی افواج ایران میں یا اس سے آگے ہندوستان میں نہ داخل ہو جائیں ۔ اس خدشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کے تحت یہ لائین بچھانے کی منظوری دی گئی تھی ۔ ایران کی طرف سے سامان کی نقل و حمل کے لیے بھی اسے استعمال کیا جانا تھا ۔ اس لائین کا سروے تو بہت پہلے سے ہو چکا تھا ، تاہم یہ ایک بڑا ہی کٹھن اور پیچیدہ منصوبہ تھا ۔کوئٹہ سے زاہدان تک اس 732 کلومیٹر طویل پٹری کو بہت ہی دشوار گزار ، غیر آباد اور مشکل ترین ریگستانی اور پہاڑی علاقوں سے گزرنا تھا ۔جن میں سے کچھ جگہوں پر تو کئی کئی مہینے تک مسلسل آندھیاں چلتی رہتی تھیں اور ہر طرف ریت کے طوفان اور بگولے اڑتے پھرتے تھے ۔
ریل کی آمد سے قبل یہ سفر اونٹوں یا گھوڑوں پر طے کیا جاتا تھا ، ہزاروں کی تعداد میں اونٹ دن رات ‎مسافروں اور سامان تجارت کو لے کر ان علاقوں میں سفر کرتے تھے ۔ ان میں سے کچھ تو ریت کے طوفان میں گھر کر ادھر ادھر بھٹک جاتے اور پھر وہیں کہیں مرکھپ جاتے، لیکن زیادہ تر اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتے تھے ۔ اس وقت کوئٹہ کی طرف سے سامان اور اناج وغیرہ ایران لے جایا جاتا تھا ۔ ایران کے مالی حالات ان دنوں اتنے اچھے نہیں تھے اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح ہی چل رہا تھا ۔ وہاں ابھی تک تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔
پھرنہ جانے ایک بار ایسی کیا وبا پھو ٹ پڑی کہ اس علاقے میں اونٹ دھڑا دھڑ مرنے لگے۔ ایک اندازےکے مطابق اس راستے پر سفر کرتے ہوئے اس خطرناک بیماری سے کوئی تیس ہزار اونٹ ہلاک ہوگئے تھے۔ اور یوں اونٹوں کا یہ سفر موقوف ہو گیا اور لوگ انتہائی بے بسی کی عالم میں پیدل ہی جانا شروع ہو گئے۔ ریگ زاروں میں راستوں کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا بس لوگ اپنے بہترین اندازے سے سمت مقرر کرکے چلے جاتے تھے۔ بعد میں انہوں نے ان مردہ اونٹوں کے ڈھانچوں کو نشانی بنا کر ان ہی کےاختیار کیے گئے راستوں پر سفر کرنا شروع کر دیا۔
جنگ عظیم اول سے قبل ہی پہلے مرحلے میں کوئٹہ سے نوشکی تک کوئی 160 کلومیٹر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی ، یہ نومبر 1905 میں مکمل ہو گئی تھی اور اس پر مقامی طور پر گاڑیوں کی باقاعدہ آمد و رفت بھی شروع ہو گئی تھی۔ 1916 میں نوشکی سے زاہدان ایران جانے والی کوئی 572 کلومیٹر طویل اور خطرناک ترین لائین بھی مکمل کر دی گئی تھی۔

ریل کی جادو نگری۔

بک ہوم پبلشرز لاہور

اپنا تبصرہ بھیجیں