ہماری سیاست اور ریاست

مذمت کرتے جاؤاور رہائی پاتے جاؤ۔۔۔9مئی کو ہونے والا واقع انتہائی مذمت کے قابل ہے لیکن مذمت کرنے پر رہائی کیوں مل رہی ہے؟ مذمت تو ہر پاکستانی ہر لیڈر کوکرنی چاہیے۔۔لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ مذمت کو رہائی کے ساتھ مشروط کیا جار ہا ہے۔۔۔چند روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس عامر فاروق نے رہنما تحریک انصاف کے واضح طور پر کہا کہ آپ پریس کانفرنس کریں اور رہائی حا صل کرلیں۔۔ادھر عدالت رہائی کا حکم دیتی تھی۔۔ اُدھر اسی رہنما کو گھر پہنچے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جاتا تھا۔۔شیریں مزاری سابق رہنما تحریک انصاف کو پانچ مرتبہ گرفتار کیا گیا۔۔ جب سیاست چھوڑ دی پھر اسکے بعد گرفتاری نہیں ہوئی۔۔اسی طرح دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا تھا اور ہو رہا ہے۔۔۔اس وقت تقریبا ماسوائے شاہ محمود قریشی کے تمام بڑے لیڈرز تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں۔۔جہانگیر ترین نئی پارٹی بنانے کیلیےالیکشن کمیشن سے رجوع کرچکے ہیں۔۔ لیڈروں کو نا اہل کروانے کیلیے عدالتوں کا استعمال بھی بند ہونا چاہیے۔۔جو کچھ نواز شریف اور جہانگیر ترین ساتھ ہوا وہ بھی قابل مذمت ہے۔۔۔لیکن بات یہ ہے کہ تقریبا تمام تحریک انصاف چھوڑنے والوں میں ایک بات مشترک ہے کہ تمام رہنما اب اپنی فیملی کو وقت دینا چاہتے ہیں۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان خود بھی تحریک انصاف چھوڑ دیتے اگر وہ چیئرمین تحریک انصاف نہ ہوتے۔۔یہ پاکستانی سیاست کی روایت ہے کہ ہر اقتدار میں آنے والی پارٹی پچھلی حکومت سابقہ وزرا پر کیسز بنانے اور نااہل کرنے اور جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔۔۔پھر بہت سے سیاستدان روتے بھی نظر آتے ہیں۔۔۔بیماریاں بھی باہر نکل آتی ہیں۔۔اگر میں آخری دودہائیوں کی بات کروں تو جو مشرف نے سیاستدانوں ساتھ کیاپھر جو آصف زرداری نے ن لیگ کے ساتھ کیاپھر ن لیگ نے جو پی پی کے ساتھ کیااور پھر تحریک انصاف نے پوری اپوزیشن ساتھ موجودہ پی ڈی ایم ساتھ کیا وہی آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔لیکن اس میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف بہت زیادہ غلطیاں کرنے کے بعد حکومتی اداروں اور حکومت کے نشانے پر ہیں۔۔۔
کیا وقت تھا کبھی عمران خان آصف زرداری کو اپنی بندوق کے نشانے پر رکھتے تھے اور آج خود نشانہ بنے بیٹھے ہیں۔۔۔ سینیٹر مشاہد اللہ مرحوم نے انکی حکومت کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ ایک دن بھی بمشکل جیل میں رہ سکیں گے۔۔تو پھر آج وہی ہو رہا ہے۔۔جو ان کے بارے میں پیش گوئیاں ہوتی تھیں۔۔۔اسی لیے کہتے ہیں کہ اُتنا ظلم کرو جتنا برداشت کرسکو۔۔لیکن اقتدار کے نشے میں تمام حکمران انسانیت بھول جاتے ہیں۔۔۔
لیکن آخر کب تک حکمران ایسے ہی ایک دوسرے کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے رہیں گے۔۔۔عام شہری کا کوئی بھی حکمران برسر اقتدار آنے کے بعد نہیں سوچتا۔۔۔
عمران خان صاحب جب برسر اقتدار تھے تو دن رات یہی سوچتے رہتے تھے کہ کب اور کیسے اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جائے۔وہی کام اب شہباز شریف صاحب کر رہے ہیں کہ کیسے کیسز بنائے جائیں ؟کیسے نااہل کیا جائے؟کیسے اپوزیشن کا نام و نشان صفحہ سیاست سے مٹایا جائے۔۔۔جب ایک دوسرے سے بدلے لینے سے فرصت ملے گی؟ تو کوئی حکومت کسی عام شہری کی بنیادی ضروریات پوری کرسکے گی۔
پاکستان بطور ریاست معاشی طور پر بہت کمزور ہو چکا ہے۔۔۔1971میں ہم سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔۔اور جو ہمارے ساتھ آزاد ہوا سکی تو بات ہیں ناکریں ۔۔وہ ہر لخاظ سے ہم سے آگے جا چکے ہیں۔۔۔معاشی اعتبار سے ڈیفالٹ کرنے والے ملک سری لنکا میں بھی ڈالر پاکستانی روپے کی نسبت بہت سستا ہے۔۔۔پٹرول ،چکن،چاول ،آٹا تمام بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاایک عام آدمی کیلیے خریدنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔۔۔
پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے تمام اختلافات ختم کرکے صرف ملک پاکستان کا سوچنا چاہیے۔۔ تاکہ وطن راہ راست پر چل سکےاور ایک فلاحی ریاست بن سکے۔۔۔ خدارا پاکستان کو آگے بڑھنے دو ،عوام کو بنیادی حقوق کے ساتھ جینے دو۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں