اسلام میں فوجی طاقت کے استعمال کے مواقع

سورۃ البقرۃ ۔ 256
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللہُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۞

🔹ترجمہ🔹
دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے الگ واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (شیطان اور ہر باطل قوت) کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے یقینا مضبوط رسی تھام لی ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور خدا (سب کچھ) سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔ ۔

🔘تفسیر آیت🔘
اصولی طور اسلام صرف تین مواقع پر فوجی طاقت کو ذریعہ قرار دیتا ہے:
۱۔شرک اور بت پرستی کی بیخ کنی کے لئے: شرک اور بت پرستی کے آثار محو کرنے کے لئے اسلام فوجی طاقت استعمال میں لاتا ہے کیونکہ بت پرستی اسلام کی نظر میں کوئی دین و آئین نہیں ہے بلکہ کجروی ،بیماری اور بے ہودہ چیز ہے اور اس کی اجازت ہر گز نہیں دینا چاہیئے کہ لوگ سو فیصد غلط اور بے ہودہ راستے پر چلتے رہیں بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیئے ۔لہٰذا اسلام نے بت پرستو ں کو تبلیغ کے ذریعے راہ توحید کی طرف دعوت دی لیکن جہاں انہوں نے مقابلے کا راستہ اختیار کیا اسلام نے طاقت استعمال کی ، ان کے بت خانہ توڑے گئے اور بت اور بت پرستی کے تمام آثار مٹا دیئے گئے تاکہ اس روحانی اور فکری بیماری کی مکمل ریشہ کنی کی جا سکے۔
مشرکین سے قتال کرنے کی آیات اسی مفہوم کی حامل ہیں ۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۳میں ہے :”وقاتلوھم حتی لاتکون فتنة“ مشرکین سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کے شرک کا فتنہ معاشرے سے ختم ہو جائے۔ اِس بناء پر محل بحث اور اس قسم کی آیات میں کوئی تضاد نہیں کہ جس کی بنیاد پر نسخ کا ذکر ضروری ۔
۲۔اسلام کے خلاف حملے کی تیاری کر نے والوں سے : جو لوگ مسلمانوں کی نابودی کے لئے ان پر حملے کی سازش کر رہے ہوں وہا ں دفاعی جہاد اور فوجی قوت استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلامؐ کے زمانے کی اسلامی جنگیں شاید زیادہ اسی قسم کی تھیں ۔ مثال کے طور پر احد ، احزاب ، حنین ، موتہ اور تبوک کے غزوات کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
۳۔تبلیغ کی آزادی حاصل کرنے کے لئے : ہر دین حق رکھتا ہے کہ منطقی طریقوں سے اس کا آزادانہ تعارف کروایا جا سکے ۔ اگر کچھ لوگ اس میں مانع ہوں اور رکاوٹ پیدا کریں تو یہ حق طاقت کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
”فمن یکفر بالطاغوت ویوٴمن بااللہ فقد استمسک بالعروة الوثقی“ ”طاغو ت “ صیغہ مبالغہ ہے ۔اُس کا مادہ ہے ”طغیان “اس کا معنی ہے حد سے تجاوز کرنا اور زیادتی کرنا ۔ہر وہ چیز جو حد سے تجاوز کا ذریعہ بنے اسے طاغوت کہا جاتا ہے ۔اسی بناء پر شیطان ، بت ، جارح اور ظالم و متکبر حاکم کو طاغوت کہا جاتا ہے ۔ حتی کے پروردگار عالم کے علاوہ ہر معبود اور ہر راستہ جو غیر حق تک پہنچائے اس پر طاغوت کا اطلاق ہوتا ہے یہ لفظ مفرد اور جمع دونوں معانی میں استعما ل ہوتا ہے ۔ آیت کے اس حصے میں قرآن کہتا ہے :جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اس سے منہ پھیر لے اور خدا پر ایما ن لے آئے اس نے گویا مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈالا ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ۔
عروة الوثقی اُس آلے کو کہتے ہیں جو دروازہ کی پشت پر نصب کرتے ہیں اور دروازہ کھولتے یا بند کرتے وقت اس پر ہاتھ ڈالتے ہیں ۔ طاغوت سے یہا ں کیا مراد ہے ۔اس بارے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں بعض نے بت کہا ہے، بعض نے شیطان مراد لیا ہے ، بعض نے کاہنو ں کو طاغوت قرار دیا ہے اور بعض نے جادوگر مراد لئے ہیں ۔لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس سے وسیع تر مفہوم مراد ہے یعنی ہر سرکش ، ٹیڑھے اور غلط مذہب اور راستے کو یہ لفظ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔در حقیقت یہ حصہ آیت کے سابقہ حصوں کے لئے ایک دلیل ہے۔ دین و مذہب جبر و اکراہ کا محتاج نہیں کیونکہ دین خدا کی طرف دعوت دیتا ہے جو ہر خیر و برکت اور سعادت کا منبع ہے جب کہ دوسرے لوگ تباہی ، انحراف اور فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔بہر حال خدا پر ایمان لانا ایسا ہی ہے جیسے کسی محکم کڑے پر ہاتھ ڈالنا کہ جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہ ہو ۔آیت کے آخرمیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کفر وایمان کا مسئلہ ایسا نہیں جو دکھاوے سے حل ہو جائے کیونکہ خدا سب کی باتوں کو سنتا ہے چاہے وہ آشکار ہوں یا بند کمروں اور مخفی اجلاسوں میں اِس طرح وہ لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی چیزوں اور لوگو ں کے ضمیروں کی حالت سے آگاہ ہے۔ یہ جملہ در اصل حقیقی ایمان لانے والوں کے لئے تشویق اور منافقین کے لئے تہدید اور دھمکی ہے ۔
📚تفسیر نمونہ

اپنا تبصرہ بھیجیں