قسم اور اس کا کفارہ

سورۃ المائدہ ۔87،89

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ۞ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ۞ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۞
🍁ترجمہ🍁

اے ایمان والو! (اپنے اوپر) حرام نہ کرو ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور (حد سے) تجاوز نہ کرو بے شک اللہ (حد سے) تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ۔ اور اللہ نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ اور اسی اللہ سے ڈرو (اس کی نافرمانی سے بچو) جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ ۔ اللہ تم سے تمہاری لایعنی قَسموں پر مواخذہ (بازپرس) نہیں کرے گا۔ مگر جو قسمیں تم نے قصداً کھائی ہیں (اور اس طرح مضبوط کی ہیں) تو ان پر ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ اور (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔ یا انہیں کپڑے پہناؤ۔ یا پھر ایک غلام آزاد کرو۔ اور جس کو اس کا مقدور نہ ہو تو وہ تین روزہ رکھے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفارہ ہے جب تم قَسم کھاؤ اور اپنی قَسموں کی حفاظت کرو (خیال رکھو) اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے آیات و احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ۔
📚تفسیر آیات📚
اس آیت میں اور اس سے بعد کی آیات میں اہم اسلامی احکام کا ایک سلسلہ بیان ہوا ہے ۔ اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ بیان ہوئے ہیں ۔ لیکن زیادہ اہم حصّہ ان اَحکام کی توضیح و تاکید کے طور پر بھی بیان ہوا ہے جو قرآن کی دیگر آیات میں پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر کی عمر کے آخر میں نازل ہوئی ہے لہٰذا ضروری تھا کہ اس میں مختلف اسلامی احکام کے بارے میں زیادہ تاکید کی جائے ۔ پہلی آیت میں بعض مسلمانوں کی طرف سے کچھ نعمات الٰہی کی تحریم کی طرف اشارہ ہوا ہے اور انہیں اس کام کی تکرار سے منع کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
”اے ایمان لانے والو! طیبات اور ایسے پاکیزہ امور جنہیں خدا نے تمہارے لیے حلال قرار دیا ہے اپنے اوپر حرام نہ کرو“۔(یٰا ایّہا الذین اٰمنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللہ لکم)۔(1) اس حکم کا تذکرہ شان نزول کے مفہوم کے علاوہ ممکن ہے اس بارے میں بھی ہوکہ اگر گذشتہ آیات میں کچھ عیسائی علماء اور رہبانوں کی مدح و ستائش کی گئی ہے تو وہ ان کے حق کی طرف مائل ہونے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی وجہ سے تھی نہ کہ اُن کے ترک ترکِ دنیا کے عمل اور تحریم طیبات کی خاطر تھی اور اس مسلمان اس بارے میں اُن کی پیروی کر سکتے ۔ یہ حکم بیان کر کے اسلام نے صراحت کے ساتھ رہبانیت اور ترکِ دنیا سے جیسے عیسائی پادری اور راہب کرتے ہیں اپنی بیگانگی کا اعلان کیا ہے ۔ اس امر کے بارے میں مزید نشریح سورہٴ حدید کی آیت ۲۷ ”و رھبانیة ابتدعوہا“ کے ذیل میں آئے گی اس کے بعد اس امر کی تاکید کے لیے کہتا ہے: سرحدوں اور حد بندیوں سے آگے نہ بڑھو گیونکہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔(ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین)۔ بعد والی آیت میں نئے سرے سے اس مطلب کی تاکید کرتا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں تحریم سے نہی کی گئی تھی اور اس آیت میں نعمات الٰہی سے جائز طور پر بہرہ ور ہونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان چیزوں میں سے جو خداوند تعالیٰ نے تمہیں بطور روزی دی ہیں حلال و پاکیزہ چیزیں کھاؤ (و کلوا مما رزقکم اللہ حلا لاً طیباً)۔
ان مواہب و نعمات سے بہرہ ور اور مستفید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اعتدال، تقویٰ اور پرہیزگاری کو فراموش نہ کرو اسی لیے فرمایا: (واتقوا اللہ الذی انتم بہ موٴمنون)۔ یعنی خدا پر تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کے تمام احکام کا احترام کرو ان سے نفع بھی اٹھاؤ اور اعتدال و تقویٰ کو بھی ملحوظ نظر رکھو۔ اس جملے کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ حکم تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ مباحات و طیبات کو حرام قرار دینا تقویٰ کے عالی اور کامل درجے سے مناسبت نہیں رکھتا ۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی طرف بھی حدِّ اعتدال سے نہ نکلے ۔
1۔ حلال و ”طیب“ کے معنی کے بارے میں پہلی جلد میں بحث ہوچکی ہے ۔
📚تفسیر نمونہ

اپنا تبصرہ بھیجیں