نیا بجٹ :کیامعاشی نمو بڑھے گی؟

نیا بجٹ :کیامعاشی نمو بڑھے گی؟ وفاقی حکومت کی طرف سے آئندہ مالی سال کیلئے144کھرب 60 ارب روپے کا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں حکومت نے انڈسٹری اور ریٹیل سیکٹر کیلئے کوئی خاص اقدامات تجویز نہیں کئےحالانکہ یہ دو سیکٹر نجی شعبے میںنہ صرف سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتے ہیں بلکہ ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے بھی ان کا حصہ نمایاں ہے۔ دوسری طرف ترقیاتی کاموں کیلئے 1150ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرکے اراکین اسمبلی کو ضرور مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اس سال کے اختتام سے قبل ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر اس بجٹ میں معاشی جمود کو ختم کرنے کیلئے انڈسٹری اور ریٹیل سیکٹر کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دیا جائے گا تاہم یہ امید پوری نہ ہو سکی ۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان تو کیا گیا لیکن متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھانے پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔
علاوہ ازیں صنعتی شعبے پر آئندہ سال میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن سپر ٹیکس کی وصولی کیلئے تین نئے سلیب متعارف کرانے کی تجویز بجٹ کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پندرہ کروڑ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر یکساں طور پر سپر ٹیکس نافذ ہے تاہم حکومت نے اس میں مزید تین سلیب متعارف کرائے ہیں جن کے مطابق پینتیس کروڑ سے چالیس کروڑ روپے کمانے والے افراد پر چھ فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔ چالیس سے پچاس کروڑ سالانہ آمدنی والے افراد پر سپر ٹیکس کی شرح آٹھ فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ پچاس کروڑ سے زائد سالانہ آمدنی والے افراد پر دس فیصد سپر ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ان اقدامات سے یہی نظر آتا ہے کہ حکومت نے اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کی بجائے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد کو ہی معاشی طور پر مزید نچوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ملک میں کام کرنیوالے تنخواہ دار طبقے کا 70فیصد غیر رسمی معیشت میں کام کرتا ہے اور ان کی تنخواہیں بڑھنے کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ ایسے میں اضافی ٹیکسوں اور مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے اس طبقے کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ معاشی سرگرمیوں میں کمی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ کم ہوتی قوت خرید کی وجہ سے متوسط طبقہ خوراک، صحت اور تعلیم پر بھی کم خرچ کر رہا ہے جس کی وجہ سے ان شعبوں کا ریاست پر بوجھ مزید بڑھتا جا رہا ہے اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی مزید تنزلی کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ اس حوالے سے بجٹ پر نظر ثانی کر ے تاکہ متوسط طبقے کی قوتِ خرید کو بڑھا کر ترقی کی شرح کو نیچے جانے سے روکا جا سکے۔دوسری طرف روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںاور مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافے کی وجہ سے جہاں عام آدمی پریشان ہے وہیں کاروباری طبقہ بھی شدید مایوسی کا شکار ہے اور بہت سے صنعتکاروں نے اپنے صنعتی یونٹس کی پیداواری استعداد بڑھانے کیلئے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی ڈوب چکی ہے۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ برآمدات میں سب سے زیادہ شیئر کے حامل ٹیکسٹائل گروپ خاص طور پر ایکسپورٹرز کے سر پر توانائی بحران کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھانےکیلئے اس سیکٹر کو جو خصوصی انرجی پیکیج دیا گیا تھا وہ بھی ختم کیا جا چکا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مرتبہ پھر خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس حوالے سے بجٹ میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ایک سال کے دوران مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چار فیصد جبکہ صنعتوں کے شعبے میں تین فیصد تنزلی آئی ہے جبکہ فی کس سالانہ آمدنی بھی 1765ڈالر سے کم ہو کر 1568ڈالر پر آ چکی ہے۔ نئے صنعتی یونٹس بجلی اور گیس کی عدم فراہمی کے باعث بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی برآمدات بھی گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل کم ہو رہی ہیں اور بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر انڈسٹری کا پہیہ چلے گا تو لوگوں کو روزگار میسر آئے گا۔ اس لئے ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے مسابقتی انرجی پیکیج اور جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم کرنے کیلئے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑھانے پر توجہ دے جس سے نہ صرف ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے بلکہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی سے معاشی بحران میں بھی کمی آئے گی۔ اس سلسلے میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے خام مال پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ساتھ لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی اور ڈیوٹی اورٹیکسوں کی شرح بڑھانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو چاہئے کہ مینوفیکچررز کیلئے ٹیکس ایٹ سورس کی شرح کم کرے کیونکہ زائد ریٹ کے باعث ری فنڈز میں تاخیر سے انڈسٹری کو سرمائے کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کیلئےتیل اور گیس کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک سے بہتر مسابقت کیلئے طویل المدت بنیادوں پر طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کار اعتماد کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں اور معاشی افق پر چھائی مایوسی ختم ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں