قومی بدنصیبی

جرمن ڈرامہ نگار برٹولٹ بریخت کے شہرہ آفاق کھیل ( گلیلیو کی زندگی) میں ایک کردار ( طالب علم) کہتا ہے کہ بدنصیب ہے وہ سرزمین جہاں ہیرو پیدا نہیں ہوتے دوسرا کردار ( گلیلیو) کہتا ہے نہیں آندرے….. بدنصیب ہے وہ سر زمین جسے ہر روز کسی ہیرو کی ضرورت آن پڑتی ہے ۔۔۔۔ ڈرامہ نگار کی چند سطریں پڑھتے ہی ہوں لگا کہ جیسے یہ مکالمہ مملکت خداد کے تناظر میں پیش کیا جارہا ہے کیونکہ نہ تو ستر سالوں میں ہمارے ہاں کوئی ہیرو پیدا ہوا اور نہ ہی ہم اس ضرورت سے کبھی سبکدوش ہوئے ۔۔۔سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ہمارا کوئی کارنامہ ایسا نہیں کہ جس کا دعویٰ ہمیں مدار بدنصیبی کی گردشوں سے باہر نکال سکے۔۔۔ نظریات،فلسفہ ،سائنسی علوم و تجربات اور معاشرتی و معاشی علوم میں کوئی ایک ایسا مشاہیر جننا ہماری سرزمین کے حصے میں نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسا کارنامہ سرزد ہوا جسے عالمی دنیا نے آ فاقی کہا ہو۔۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام ، ملالہ یوسفزئی اور عاطف میاں کے علاوہ۔بھی کئی نام ہیں جنہیں سرزمین کی مٹی کی خوشبو تک لینے نہیں دی گئی ۔۔۔۔ بنیادی طور پر بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی سرزمین سے ہیرو پیدا ہونے ہی نہیں دیے چنانچہ افغانیوں ،ایرانیوں اور عربوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھتی خاک اٹھاکر اپنی آنکھوں میں دھول جھونک لینا ہمارے ماضی کا مستند حوالہ ہے سو ان کی یلغار نے اس سرزمین کی کوکھ بانجھ کرڈالی چنانچہ اب ہمارا حال فقط نوحہ خوانی اور گریہ زاری ہے جو اکیسویں صدی میں بھی ہماری ہم رکاب ہے حالانکہ یہ صدی کسی فاتح کی تلوار سے زیادہ سیاسی نظام کی پختگی اور آئین کی طرف دار ہے چنانچہ فرد واحد پر انحصار یا اس کے انداز خسروی کا پرچار اکیسویں صدی کے ہاتھوں سے منسوخ ہوچکا اور نیا اصول جسے تمام ریاست ہائے عالم نے اپنا لیا ہے وہ فقط سیاسی و حکومتی نظام کی پختگی ہے جسے آئین کے ضابطوں پر استوار کیا جائے ۔۔۔ اور یہی ضابطہ ہی اقوام کی ترقی کی ضمانت دیتا ہے لیکن اگر کوئی بھی قوم اس اصول سے سروکار نہیں رکھتی اور مسیحاؤں کے انتظار میں آنکھوں کی پتلیوں کو پتھر کرچکی ہے تو وہاں ریاست اور سیاست صاحبانِ اقتدار و جبہ و دستار کے سامنے پابجولاں رقص کرتی نظر آتی ہے تاکہ بامراد ہوسکے ۔۔۔ ستر سالوں کے سیاسی کھیل کی بات کرنے کی بجائے اگر گزشتہ چند مہینوں کے حالت زار پر آنسو بہا لیے جاویں تو کافی ہووے۔۔۔

قصہ ایسا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ حزبِ اختلاف جو کئی ادوار اقتدار کا کھیل اپنی اپنی باری لیتے گزار رہی تھی اچانک ملک کے لیے وفادار ہوگئی اور جمہوری حکومت جسے کئی طرف سے حمایت حاصل تھی کا تختہ الٹنے پارلمینٹ میں قرارداد لے آئی ۔۔ حاکم دوراں نے وہ اسمبلیاں ہی توڑ ڈالیں تاکہ ایسی چالیں ان کے اقتدار پر اپنی بری نظر ڈالنے کی ہمت نہ کریں ۔۔۔۔ پھر عدالت عالیہ نے رات گئے اپنے دروازے کھولے اور غلام مشعلیں اٹھائے فیصلہ لے آئے ۔۔ حکومت تبدیل ہوئی ۔۔ نئی حکومت بنی ۔۔۔ صوبوں میں بھی حکومتیں ٹوٹیں۔۔۔ جلسے ہوئے ۔۔۔۔ الیکشن ہوا ۔۔۔ صاحبانِ اقتدار پھر برسر اقتدار آئے ۔۔۔ پھر فیصلے ہوئے اور وفاقی طرزِ حکومت میں وزیراعظم فقط چند کلومیٹر کے بادشاہ بن کر رہ گئے ۔۔۔۔ ہر سیاسی جماعت کو فکر اقتدار ہے ۔۔۔ ہر امیدوار کو طمع اقتدار ہے۔۔ ایک گروہ چاہتا ہے کہ آزاد ہوجائے اور دوسرا گروہ چاہتا ہے کہ آزادی مانگنے والوں سے آزادی حاصل کی جائے ۔۔۔ ہر کوئی عوام سے محبت کا دم بھرتا اور فقط دم ہی بھرتا دکھائی دیتا ہے تاکہ اقتدار کی راہداریوں سے خسروانہ انداز سے ٹہلتا ہوئے اپنی خواب گاہ میں جا سوئے اور ایک ٹویٹ سے دست مسیحائی کا حق ادا کرے۔۔ پاکستان میں سیاسی گہما گہمی نے ان صاحبانِ اقتدار کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے اور دوسری جانب وسیب پر پانی قہر بن شہر گاؤں بستیاں اور گھروں کے گھر نگل گیا ہے ۔۔۔ سیاسی وابستگیاں اور سیاسی کھیل انسانیت پر بازی لے گیا ہے ۔۔ مسمار بستیوں اور کھلے آسمان تلے وسیب کے مکین کسی مسیحا کے انتظار میں بریخت کی بات کی نفی کررہے ہیں ۔۔۔۔۔ عذاب زدہ بستیوں میں ہیرو پیدا ہونا باشندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

قومی بدنصیبی” ایک تبصرہ

  1. You are in reality a good webmaster. This site loading pace is incredible. It seems that you’re doing any unique trick. Moreover, the contents are masterpiece. you’ve done a excellent job in this matter! Similar here: tani sklep and also here: Bezpieczne zakupy

اپنا تبصرہ بھیجیں