تیرا بُھولا ہُوا پیمان ِ وفا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تِری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مُصیبت میں عجب یاد آیا

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدہ ء شب یاد آیا

تیرا بُھولا ہُوا پیمان ِ وفا
مَر رہیں گے اگر اب یاد آیا

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر ِ طرب یاد آیا

حال ِ دل ہم بھی سُناتے لیکن
جب وہ رخصت ہُوا تب یاد آیا

بیٹھ کر سایہ ء گل میں ناصر

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

ناصر کاظمی

2 تبصرے “تیرا بُھولا ہُوا پیمان ِ وفا

اپنا تبصرہ بھیجیں