“آبائی گھروں کے دُکھ”

آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں
ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں
اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
گِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرش
اور چُونا گچ، نَم خوردہ دیواریں
بے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیں ،چھتوں پر اُگی ہوئی گھاس املی اور املتاس کے درخت
ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں
آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں
پڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتن
گرد جھاڑنے، قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیں
گجرات کی پیالیاں اور چینکیں خالی پڑی رہتی ہیں
کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاں
اترنے کی منتظر رہتی ہیں
اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں
سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں
فریم کیے ہوئے شجرے، بلیک اینڈ وائٹ تصویریں
کامریڈی دور کا مارکسی ادب
اور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیں
سب کچھ ایک جگہ پڑا رہتا ہے
آبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیں
بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائے
بینائی سے تقریباْ محروم مائیں اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ اور بیوائیں
آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں ، زمانے کھانستے ہیں
آبائی گھر ، لَوٹ آنے کے وعدوں پر
باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں
اور کبھی واپس نہ آنے والوں کے لیے
دل اور دروازے کُھلے رکھتے ہیں
آبائی گھروں میں وقت بوڑھا نہیں ہوتا
آبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جا سکتے
انہیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتا
یہ صرف کسی اپنے جیسے کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیں
عمریں گزر جاتی ہیں
شہروں میں اور ملکوں میں
لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں
گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو
تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیں
کبھی نہ کُھلنے کے لیے
اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں
زمین پر آخری دن آنے سے پہلے
ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں

نصیر احمد ناصر

اپنا تبصرہ بھیجیں