اسپیکر راجہ سے شروع وزیر پٹیل پر ختم ؟

کتنا معصوم ہے راجہ ریاض، فرماتا ہے مسلم لیگ نواز مجھے پہچانتی ہی نہیں، راجہ کو پیپلزپارٹی سے بھی ایسا ہی شکوہ تھا، لیکن بھول گئے کہ، پنجاب میں سینئر وزیر بھی تو پیپلزپارٹی ہی نے بنایا تھا۔ خیر، راجہ ریاض نے پر سوں ترسوں جو تقریر فلور پر کی، کمال کی۔ بہرحال آئینی بحران موسم میں بولنا راجہ ریاض کا، وہ بھی مقبول لیڈر کے خلاف کوئی عام سی بات نہیں، دلیری اور سیاست ہتھیلی پر رکھنے والی بات ہے, کسی سیاستدان کیلئے سیاست ہتھیلی پر رکھنا گویا جان ہتھیلی پر یا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے! مگر ایک بات اداروں اور سیاستدانوں کو مدنظر رکھنی ہو گی ، بدلہ سیاسی ہو یا “ذاتی” انسان دو قبریں کھودتا ہے، ایک اپنی، دوسری دشمن کی۔ آئینی اور سیاسی بحرانوں کے اس موسم کے ساتھ، انصاف اور فیصلوں کا موسم بھی جُڑ گیا ہے، اس انصاف اور فیصلے میں جہاں ایک باریک سا فرق ہوتا ہے وہاں ایک نمایاں ریکشن بھی اکثر جنم لیتا ہے!

امتحانی صورت کا یہ عالم ہے ریاست میں انتخابی مقابلہ سے پہلے ایک آئینی اور سیاسی مقابلے کی ٹھن چکی، جس سے سیاسی، پھر معاشی اس کے بعد معاشرتی اور اب آئینی بحران کے زنجیری عمل نے ریاست اور مڈل و لوئر مڈل کلاس کی چولیں ہلا دیں۔ وہ طبقہ جو اشرافیہ اور ریاست کی مزدوری، سروسز، حفاظت ، امانت، ربط کا بوجھ اٹھاتا اور ہر طرح کی کوارڈینیشن کا بھی، اس طبقے کی انصاف اور فیصلہ کے بیچ کی سائنس سے کمر توڑ دی گئی ہے، فیصلہ سازی بھی بہت بڑی سائنس ہے بھلے یہ حکومت کی جانب سے ہو یا عدالت کی طرف سے۔ اطلاع اور مفروضہ سے شروع ہونے والی یہ سائنس اِستِخراجی مَنطِق سے گزرتے ہوئی تھیوری اور قانون سازی سے ہوتی ہوئی عمل تک پہنچتی ہے، وہ عمل کہ جس سے زندگی و سیاسی زندگی اور ادارہ جاتی زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی ! اس کشمکش کے دور میں گر کوئی تھوڑی بہت عوامی خود مختاری ہوا کرتی تھی تو وہ ختم ہوگئی، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ والی کہانی مسلسل سبوتاژ ہو رہی ہے حالانکہ ہر شخص سیاستدان ہے، وہ بولے یا خاموش رہے لیکن وہ اپنی زندگی اور گرد و نواح سے تعلق دادری تو نبھاتا ہے!

ایک بات تو طے ہے کوئی اس کی نزاکت سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال سیاست کبھی نہیں ہارتی ! وہ مسلم لیگ نواز کی ہو یا پی ٹی آئی کی یا پیپلزپارٹی کی، بے شک سیاستدان کی سی ایک لڑی سے نکل کر دوسری لڑی میں چلے جائیں پروئے تو وہ ایک اور سیاسی تسبیح ہی میں جائیں گے، کبھی ریٹائر نہیں ہوتے لیکن اس کے برعکس سربراہانِ ادارہ جات کی تقریر اور تدبیر نوکری تک ہوتی ہے، اگرچہ بالواسطہ کوئی تعلق وہ سیاست سے بنا بھی بیٹھے ہوں۔ جس طرح آئین ایک زندہ دستاویز ہے ٹھیک اسی طرح پولیٹیکل سائنس بھی ایک زندہ عمل جس میں جمہوریت ایک ازخود معجزہ ہے جو انسانی حقوق کی ضیائی تالیف کرتا ہے، اور شاید اداروں میں کچھ لوگ یہ سبق اور فلسفہ بھول کر فطری تقاضوں سے کنی کترا رہے ہیں جو ریاست کیلئے بگاڑ کے دریچے کھولنے کے مترادف ہے! داروں کے کچھ لوگ محض اپنے پیاروں اور عزیزوں کی ٹکٹ اور سیاست کی خاطر ، (اس ادراک کے ساتھ کہ سیاست ہی زندہ حقیقت) قومی سیاست کو غیر متوازن بلکہ مہلک تک کرنے کے درپے ہیں۔ جو آگے چل کر مزید خطرناک ہوں گے۔ ایسا کھیل کھیلنے والوں کے پاس وقت تھوڑا ہے، اور یہ بات نواز شریف ، عمران خان اور آصف زرداری کے علاوہ بلوچ اور پختون عمائدین کو بھی سمجھ لینی چاہئے کہ جمہوریت پسندوں کا سر جوڑنا ضروری ہے!

جنابِ اسپیکر راجہ پرویز اشرف! اسمبلی میں خودمختاری و غیرجانبداری کی علامت ہیں، صرف اسمبلی چیف ہی نہیں سبھی پارلیمانی امور کے نگہبان بھی ہیں سو جمہوریت اور پارلیمانی تقدس کیلئے جس معیار کی ضرورت ہے گویا وہ آپ میں ہے، آپ سے قبل جو یہاں اسپیکر تھا وہ آپ سا زیرک تھا نہ جمہوریت نواز، اس پر ایک امتحان آیا تو باگ ڈور ڈپٹی اسپیکر کو دے کر وہ بھاگ گیا، وہاں ڈپٹی نے بھی فاؤل کھیلا تھا۔ جیسے سابق اسپیکر نے پارلیمینٹ کا میدان چھوڑا ویسے ہی تحریک انصاف کے ممبران نے پارلیمان چھوڑا ، اگر وہ نہ چھوڑتے تو حالات مختلف ہوتے ، وہی اس وقت پنجاب اور کےپی کے حکمران ہوتے، یہ ان کی ویسی ہی غلطی تھی جو پیپلز پارٹی نے 1985 کا الیکشن نہ لڑ کر اور جماعت اسلامی نے 1997 کا الیکشن چھوڑ کر کی، وہ فیصلے آج تک ان پارٹیوں پر بھاری ہیں۔ اور، جو “غیر پارلیمانی” چالیں پی ٹی آئی نے چلیں سسٹم روکنے اور محض اپنا آپ چلانے کیلئے اس کا آپ نے بروقت اور بمطابق چال درست توڑ کیا۔ اب جو امتحان آیا ہے یقیناً آپ سابق اسپیکر اسد قیصر کی طرح دوڑیں گے۔ نہ آپ کا ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی ہی غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کا مرتکب ہوگا۔ آپ کو صدر ڈاکٹرعارف کی جانب سے بھی مختلف بلز، موشنز اور تحریکوں میں ٹف ٹائم ملے گا تاہم امید ہے آپ ایوان صدر کا وقار ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلے لیں گے۔ ویسے تو چھ آدمی بھی ایک بات پر آسانی سے اتفاق نہیں کرتے سو اس تقسیم میں اعصابی اور جمہوری پاورفُل ہی کامیابی پاتے ہیں۔ ہاں، آخر میں ایک اہم بات، اسمبلی میں دوسری صف کی لیڈرشپ کی نفسیاتی اور سیاسی دسترس بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی ایک شاندار مثال عبدالقاد پٹیل سے لوگ بھی ہیں جو وفا کی علامت اور جمہوریت کی استقامت ہیں۔ 2018 سے اب تک بحثیت ممبر اور بطورِ وفاقی وزیر، لیڈر و کارکن کی حیثیت سے ان کی تقاریر پر سیاسیات کے طلبہ کو تھیسس کرنا ہوگا، بالخصوص چار دن قبل کی، پتہ چلا، بےنظیر بھٹو نے ایویں ہی اسے لیاری سے حقیقی بھائی مرتضٰی بھٹو کے مقابلہ پر الیکشن نہیں لڑایا تھا، بی بی نے بھرے جلسہ میں کہا میرا بھائی۔۔۔، تو آگے سے آواز آئی مرتضیٰ بھٹو؟ کہا، نہیں، عبدالقاد پٹیل! اور یہ طالب علم رہنما الیکشن جیتا۔ پٹیل سے آئینے بھی اسمبلی میں ضروری ہیں فواد چوہدری، اعظم سواتی، بابر اعوان، راجہ ریاض، سرورخان اور فہمیدہ مرزا جیسے متعدد کو دکھانے کیلئے، جمہوریت اور وفا کا سبق سکھانے کیلئے!

اپنا تبصرہ بھیجیں