مستنصرحسین تارڑ کی باتیں

بیگم اختر ریاض الدین تو اردو کا ایک لفظ نہیں لکھ سکتی تھیں.
انتظار حسین کو سیکس کا تجربہ ہی نہیں تھا.
مصوروں کو ادیبوں سے بہتر سمجھتا ہوں
“بلائنڈنس” پڑھنے کے بعد دل چاہا اپنی کتابوں کو آگ لگا دوں
اسماعیل قادرے کو فی الحال سب سے بڑا ناولسٹ مانتا ہوں
گورنمنٹ کالج پڑھتا تھا اور یہ پتہ نہیں تھا کہ بچہ آگے سے پیدا ہوتا ہے یا پیچھے سے .
عابدہ پروین انتہائی برا گانے والی ہے.اسے ایک منٹ نہیں سن سکتا.
ممتاز مفتی فراڈ بابا تھا. محمد خالد اختر بڑے ادیب .
…………………

انتظار حسین نے کبھی سیکس کے بارے میں نہیں لکھا، کیونکہ اسے اس کا تجربہ نہیں تھا. ایک جگہ اس نے کیا ہے بس یونہی.

محمد خالد اختر بڑے ادیب ہیں. آپ ان کو تسلسل کے ساتھ دو تین دن پڑھیں تو آپ اردو ادب میں کسی کی تحریر پڑھنے کے قابل ہی نہیں رہتے، سب پھوکی لگتی ہیں.

بیگم اختر ریاض الدین نے تو لکھا ہی نہیں. وہ تو اردو کا ایک لفظ نہیں لکھ سکتیں. وہ انگریزی میں لکھتی تھیں،مولانا صلاح الدین احمد نے ترجمہ کیا. ان کی تیسری کتاب کیوں نہیں آئی، اس لئے کہ مولانا فوت ہو گئے ہیں.

میں مصوروں کو ادیبوں سے زیادہ بہتر تصور کرتا ہوں. مصور میں” میں” بہت کم ہوتا ہے. ادیب دوچار غزلیں یا ایک دو ناول لکھ لیتا ہے توکہتا ہے میں بہت بڑا ہوگیا ہوں.

میں نے Blindness پڑھنے کے بعد بیوی سے کہا میرا جی کرتا ہے اپنی تمام کتابیں صحن میں رکھوں اور آگ لگادوں، لٹریچر تو یار یہ ہے، ناول تو یہ ہوتا ہے.

“بہاؤ” کے کرداروں کے ناموں اور زبان کے سلسلے سید علی عباس جلالپوری، عین الحق فرید کوٹی اور ابن حنیف میرے بہت کام آئے.

مہناز نئی نئی آئی تھی، اس کا انٹرویو کررہا تھا. پوچھا آپ کا موسیقی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ ہکی بکی رہ گئی ، ایسا جواب دیا کہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں دفن ہوجاؤں. کہنے لگی،جو آپ نے پوچھا ہے یہ تو مجھے پتہ نہیں، لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ میں گاسکتی ہوں، مجھ سے گانا سن لیں.

ابن انشا کو فکشن میں بھی بڑا مانتا ہوں اور شاعری میں بھی.

انتظار حسین نے نانیوں سے سیکھا، میں نے اپنی ماسیوں(خالاؤں) سے سیکھا.

وہ معصومیت کا زمانہ تھا. مجھے والد نے اپنے خرچے پر انگلستان بھیجا، میں منٹو صاحب کا ہمسایہ، گورنمنٹ کالج کا پڑھنے والا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ بچہ آگے سے پیدا ہوتا ہے یا پیچھے سے.

میرزا ادیب بیچارے بھاٹی سے باہر کبھی گئے ہی نہیں، انہوں نےصحرا دیکھا ہی نہیں لیکن اپنے تخئیل سے جو بھی بیان کیا، لوگ اس سے لطف اندوز ہوئے، کیونکہ انہوں نے بھی صحرا نہیں دیکھا تھا.

اسماعیل قادرے کو میں فی الحال سب سے بڑا ناولسٹ مانتا ہوں. اس کو نوبیل انعام اس لئے نہیں ملا کہ وہ البانیہ کا ہے لائم لائٹ میں نہیں آیا. اس کے سات آٹھ ناول سب البانیہ اور ترانہ شہر کے حوالے سے ہیں.

طاہرہ اقبال کے” نیلی بار” کا پہلا آدھا حصہ کلاسیک ہے، خالد فتح محمد کا “ٹبہ” اور “خلیج” ، اختر رضا سلیمی کا” جندر” ، عاصم بٹ کا “دائرہ”، مرزا اطہر بیگ کے ناول بڑے ناول ہیں.یہ نہیں کہ ان کے لکھنے والے جونئیر ہیں تو ہم انہیں بڑا نہ کہیں.

سینئر ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ ایک بڑے ادیب ہیں. اگر آپ پہلے بیوقوف ہیں تو سینئر ہوکر بھی وہی رہیں گے.

میں نے مشہور بہت کیا ہوا ہے کہ میں شاعروں کے خلاف ہوں،دراصل میں برے شاعروں کے خلاف ہوں. حسرت موہانی میرا بڑا فیورٹ شاعر ہے. حسرت کی ایک غزل عابدہ پروین نے گائی ہے.

عابدہ پروین انتہائی برا گانے والی ہے. میں اسے ایک منٹ نہیں سن سکتا. وہ بس ایک ٹون میں چلی جاتی ہے. گھوم چرخڑا گھوم، گھوم چرخڑا گھوم.. نہ کوئی سوز، بس ڈھاں ڈھاں ڈاں.

ممتاز مفتی بابا تھا فراڈ بابا. 80 سال کی عمر میں عشق میں مبتلا ہوگیا.

جس زمانے میں روز صبح ہر گھر میں سکرین پر بیٹھا ہوتا تھا، اس وقت سو میں سے سو لوگ مجھے پہچانتے تھے. اب سو میں سے پانچ پہچانتے ہیں. مجھے فکر نہیں ہوتی.

اس زمانے میں ملٹری انٹیلیجنس کے ایک بندے نے مجھے کہا ہم آپ کے بڑے شکرگزار ہیں. جب کوئی انڈین جاسوس پکڑتے ہیں تو وہ نمازیں، کلمے، قرآن سب جانتا ہوتا ہے. اچانک ہم اس سے پوچھتے ہیں، تمہیں مستنصر حسین تارڑ کا پتہ ہے، وہ کہتا ہے نہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ انڈین جاسوس ہے، پاکستانی ہوتا تو پتہ ہوتا.

میں کبھی آپ بیتی نہیں لکھوں گا، یہ ساری آپ بیتیاں ہی ہیں جو میں لکھ رہا ہوں.
( سہ ماہی ” استعارہ ” کو انٹرویو )

اپنا تبصرہ بھیجیں