ریڈیائی لہروں کے صوتی اثرات

محمد خالد وسیم ایڈووکیٹ
گزشتہ دنوں ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس اہم میڈیم کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ انسانی زندگی میں بنیادی تبدیلیوں کو متعارف کروانے والے میڈیم نے جس طرح اپنی اہمیت کا لوہا منوایا اور انسانی تمدن و تہذیب پر اپنے اثرات چھوڑے آج بے توجہی کا شکار ہے۔ قوم کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ریڈیو پاکستان کی اپنی تاریخ ہے۔ پاکستانی عوام کی اس ادارے سے جذباتی وابستگی رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تعمیر پاکستان تک ریڈیو پاکستان نے اپنا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا ہےمگر آج کا ریڈیو پاکستان زبوں حالی کا شکار ہے، اس کو مالی بحران کا سامنا ہے ۔ اس کو ٹیکنالوجی کی کمی کا سامنا ہے غرض اس کی رَگوں میں نئے خون کی ضرورت ہے مگر حکومتی بے اعتنائی اور اپنوں کی بے تو جہی کا شکار ریڈیو کا ادارہ سسکیاں لے رہاہے۔
ریڈیو پاکستان کو اکیڈمی کا درجہ حاصل رہا ہے اس سے وابستہ افراد نے فنی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ موسیقی، شاعری، صدا کاری، اداکاری،نعت گوئی، قوالی غرض کہ ہر فن کے ہر شعبہ میں نامور افراد کو متعارف کروانے میں ریڈیو پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے، اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن نے ان اقدار کو آگے بڑھایا مگر جو فن کار ریڈیو پر کامیاب ہوا اس نے پھر ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اورکسی جگہ ناکام نہ ہوا۔ 1965ء کی انڈیا پاکستان جنگ میں پوری قوم میں اتحاد پیدا کرنے میں ریڈیو پاکستان کا اہم کردار رہا ۔ خبروں کی بر وقت فراہمی کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر لڑنے والے فوجی جوانوں کی ہمت کو بڑھانے میں ریڈیو کا کردار زبر دست رہا۔ فن کاروں نے اپنے عظیم فو جی بھائیوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی ورنہ اکاش وانی ریڈیو نےتو لاہور پر قبضے کی خبر نشر کر کے قو م کے مورال کو ڈائون کرنے کی کوشش کی تھی۔ ریڈیو پاکستان نے مگرپوری قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا اور قوم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ ریڈیو پاکستان پر ان دنوں بڑے شاہکار ترانے اور گیت تخلیق کیے گئے جو آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتے ہیں اور جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ریڈیو پاکستان کو آج بھی قوم کو متحد کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے لیے صرف ٹھوس منصوبہ بندی اور پر خلوص افراد پر مشتمل ایک ٹیم کی ضرورت ہے ۔ ریڈیو پاکستان کی اکثر عمارات بہت پرائم لوکیشنز پر واقع ہیں مگر یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ان کو محفوظ بنا کر اور جدید طرزِتعمیر سے مزین کر کے ان کے کچھ حصے کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کر کے مستقل آمدن کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے یہاں ہماری مراد انہیں قطعاً فروخت کرنا نہیں ہے بلکہ کرایے پر دے کر آمدن بڑھائی جا سکتی ہے۔ سب کے علم میں ہے کہ کچھ مفاد پرست لوگ ریڈیو پاکستان کی چند عمارات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کو اونے پونے خرید کر اپنے ذاتی استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان اسلام آباد ، لاہور، کراچی اور پشاور کی عمارات قابل ذکر ہیں جو نہ صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جب کہ ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت سے قیام پاکستان کا اعلان تاریخ کا حصہ ہے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان سیالکوٹ کے چینل ایف ایم 101نہ صرف سیالکوٹ بلکہ گردو نواح کے علاقوں با لخصوص سرحد پار بسنے والوں کے لیے بھی بہترین نشریات پیش کر کے وطن عزیز کی خدمت کر رہا ہے بلکہ مقامی فنکاروںکو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانےکے باب میں ایک معیاری پلٹ فارم بھی فراہم کر رہاہے۔ اس ادارے کو بھی مالی مسائل کا سامنا ہے مگر مقامی اسٹاف اپنی محنت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے اور 21 گھنٹے روزانہ کی بلا تعطل نشریات پیش کر رہاہے۔
عالمی سطح پر سرکاری ذرائع ابلاغ کے ادارے خصوصاً ریڈیو اور ٹی وی ریاستی وسائل اور تعاون سے ہی چل رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ادارے کمرشلز کے ذریعے اپنے وسائل پیدا کرتے ہیں مگر ان کے لیے مالی وسائل ریاست کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں تا کہ حکومتی موقف کے ساتھ ساتھ قومی یک جہتی اور اتحاد کو فروغ دیا جا سکے اور منفی پرو پیگنڈا کا موثر طور پر منہ توڑ اور بر وقت جواب دے کر اس کا سدباب کیا جا سکے۔ تاہم پاکستان میں ریڈیو ملک کی نظر یاتی سرحدوں کا حقیقی محافظ ہے ،اس وقت مسائل کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے اور جہاں پر ریڈیو کی اپنی عمارات موجود نہیں ہیں وہاں پر یہ اپنی عمارات خرید کر اور جدید مشینری فراہم کرکےادارے کوخصوصاً سرحدی شہروں میں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی اس ادارے کے وسائل پر قابض ہے جونہ خود کام کرتی ہے اور نہ کام کرنے دیتی ہے اس سے قبضہ چھڑا کر پروفیشل افراد کو تعینات کر کے ریڈیو پاکستان کو حقیقی اہداف کے حصول کیلئےاستعمال کیا جائے۔ اس ادارے میں پطرس بخاری جیسے افراد نے نہ صرف ادارے کو مضبوط کیا بلکہ خود بھی بین الاقوامی سطح پر نا م کمایا۔ لوگوں کی سماعتوں میں اب بھی اشفاق احمد عرف تلقین شاہ ، نظام دین، موہنی حمید، ثریا نصیر، یاسمن طاہر، امتیاز علی تاج ، اعظم چشتی ، قاری خوشی محمد وغیرہ کی آوازگونجتی ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں ، مہدی حسن ، عنایت حسین بھٹی وغیرہ کی ترنم سے بھر پور آواز میں گیت اور طارق عزیز، عرفان کھوسٹ، سلطان کھوسٹ اور بے شمار عظیم فن کار ریڈیو پاکستان کا ہی تربیت یافتہ اثاثہ تھے۔ مگر اب یہ ادارہ بانجھ ہو گیا ہے جس کے لیے حکومت کو فوری طور پر ریڈیو پاکستان کی عظمت رفتہ کو بحال کر کے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ریڈیائی لہروں کے صوتی اثرات” ایک تبصرہ

  1. Wow, wonderful blog layout! How lengthy have you ever been blogging for? you made running a blog glance easy. The total glance of your site is wonderful, let alone the content material! You can see similar here sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں