محمد بن سلمان کی مسلم امہ کے امن و اتحاد کے لئے کوششیں

سعودی عرب اورا یران کے درمیان کئی سالوں سے جاری کشیدگی کے خاتمے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے آنے والی خبروں نے بلاشبہ مسلم امہ کے لئے ایک تازہ اور خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی میں کمی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس ساری کوشش کے پیچھے چین کی دور اندیش اور صاحبِ بصیرت قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یقینا اس معاہدے سے علاقائی استحکام و سلامتی کو فروغ ملے گا اور خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو گا۔

دونوں ممالک کے درمیان 2019ء سے تعلقات میں شدید کشیدگی تھی جب سعودی عرب نے ایران پر سعودی آئل ڈپو پر ڈرون حملہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا تاہم ایران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی عرب پر سرحد پار سے میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہے ہیں اور 2022ء میں وہ حملے متحدہ عرب امارات تک جا پہنچے۔

حالیہ دنوں میں دیکھا جائے تو ولی عہد محمد بن سلمان عالمی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اور مذکورہ معاہدہ بھی انہی کی کوششوں کا ثمر ہے انہوں نے ماضی کی تمام باتیں بھلا کر ایک بہترین کاوش کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے۔ محمد بن سلمان جب سے ولی عہد بنے ہیں وہ دلوں کی دنیا کے روشن پیغام سے افکارِ ابلیس کو شکست دینے کے لئے پر و بازو حرکت میں لا رہے ہیں۔ وہ تشکیلِ ملت کے لئے اثاثہ وجود کو لٹانے کے لئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ اب ان کا نعرہ، ان کا ہدف اور ان کی منزل ملت کی یکجہتی ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر وقت امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے اتحاد اور اتفاق کی سبیل تلاش کر رہے ہیں۔

قوموں کی تاریخ میں یک جہتی، اتحاد یک جان ہونے کا مرحلہ اسی وقت آتا ہے جب ان کا دشمن مشترک اور خوفناک ہو۔ امریکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مہاجروں کی ایک قوم تھی۔ انہوں نے 1917ء میں روس کے بننے کے بعد سے اپنے لئے مشترکہ دشمن یعنی کیمونسٹ کو تخلیق کیا۔ اسے انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ جب 1992ء میں روس ٹوٹا لوگوں نے تاریخ کا انجام نامی فلسفے بگھارنے سروع کئے لیکن امریکہ نے اپنی قوم کو متحد کرنے کے لئے ایک اور دشمن تخلیق کر لیا، مسلم امہ۔ یہ لوگ چھا جائیں گے۔ یہ ہم سے لائف سٹائل چھین لیں گے۔ اس امہ کا خوف اس قدر پوری امریکی قوم پر سوار کیا گیا کہ وہ کچھ اور سننے کو تیار نہ ہوئی۔

عصرِ حاضر میں یہود و نصاریٰ نے مل کر اجتماعی طور پر اسلامی خطہ(جزیرہ عرب) کے لئے پیہم مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور خلیجی اسلامی ممالک کو جنگی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ جب سپر پاور ملکوں کے لئے اسباب مہیا ہو گئے تو وہ ظاہری طور پر فوجی دخل اندازی کے لئے کوشاں نظر آنے لگے کیونکہ اقتصادی طور پر انہیں پہلے ہی بالادستی حاصل تھی اس لئے مغربی ممالک کی نیتیں خراب ہونے لگیں اور ان کا فتور اپنی انتہا کو پہنچ گیا حتیٰ کہ وہ بدنیتی کی وجہ سے اس بات کے خواہاں نظر آنے لگے کہ پہلے ان خلیجی ممالک کے پورے خطے کو بد اپنی اور انتشار کی آماجگاہ بنا دیا جائے اور پھر انہیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے آپس میں دست و گریباں کر دیا جائے تا کہ یہ اپنی ساری توانائی اسی کشمکش کی نذر کر دیں۔

اس حقیقت کو پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا کہ دشمنانِ اسلام نے اسلام کی تیز رفتار ترقی کے خوف سے ہمیشہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ ماضی قریب میں نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو اذیت، پریشانی اور گونا گوں مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ ٹوئن ٹاورز کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کی کالک سے اسلام اور مسلمانوں کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ دشمنانِ اسلام نے جہاں ایک طرف مسلم ممالک میں سازشوں کے جال بن کر بد امنی، خونریزی اور قتل و قتال کو جنم دیا، وہیں دوسری جانب امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر مختلف مسلم ممالک میں مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے خون کی ندیان بہا دیں۔ نائن الیون کے بعد ہر زبان کی لغت میں موجود کون سا منفی اور مکروہ لفظ ایسا نہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ خلیجی ممالک میں فرقوں کے درمیان فسادات وہاں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے کرائے جا رہے ہیں۔ خلیجی خطے کو نشانہ بنانے کا مقصد مذہب کو بد نام کرنا اور خطے میں موجود مادی مفادات اور دولت کو تقسیم کرنا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بہتری کے لئے اقدامات کرنا اس لئے بھی بہتر ہے کیونکہ مسلم دنیا کی دولت اور وسائل پر قابض ہونے کے لئے امتِ واحد میںفرقہ واریت، لسانی، گروہی اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انتشار و افتراق کی راہ ہموار کرنا ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہے۔ یقیناً فرقہ واریت کی بنیاد پر ہی برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین اختلافات کی خلیج حائل رہی ہے جب کہ فرقہ واریت ہی طویل ترین ایران عراق جنگ پر منتج ہوئی تھی جس میں دونوں برادر اسلامی ممالک کو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا اور دنیا کو یہ کہنے کا بھی موقع ملا کہ مسلمان خود آپس میں تحمل، برداشت اور رواداری سے کام نہیں لے سکتے۔

مسلمان ممالک کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا جھوٹا پروپیگنڈہ بھی ہوا بلکہ مسلمان ممالک بھی ترقی اور خوشحالی کی توجہ تو کجا اس پروپیگنڈہ کے خلاف بھی مٔوثر اتحاد نہ قائم کر سکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اگر مسلم دنیا اپنے مذہبی، فروعی اختلافات کو پسِ پشت رکھ کر مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لئے باہم متحد ہو جائے تو تیل، گیس، کوئلے اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں موجود وسائل کو ایک دوسرے کے تعاون سے بروئے کار لا کر مسلم دنیا امریکہ کے مقابلے کی سپر پاور بن سکتی ہے۔
سعودی عرب اورا یران نے مصلحتوں کے لبادے اتار کر اتحادِ امت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جناب محمد بن سلیمان کی کوششوں سے جو پیغام جائے گا وہ ساری دنیا کو باور کرا سکے گا کہ حضرت محمدﷺ نہ شیعہ تھے، نہ سنی تھے وہ رحمت اللعالمین تھے ۔ اس لئے ان کا دین بھی پوری کائنات کے لئے سلامتی اور رحمت کا دین ہے چنانچہ ان کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر مسلم دنیا اتحاد و یکجہتی کی علامت بن سکتی ہے۔ مسلم دنیا کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ فرقہ واریت اور دوسرے اختلافات صرف مسلم دنیا کو منتشر رکھنے کی سازش تھی اور یہی مسلم دنیا کے اتحاد کے لئے پیش رفت ہے۔ سوچا جائے تو امتَ مسلمہ کے درمیان ایسی کتنی ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے دین ایمان پر اور عقیدے پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن پھر بھی ان فروعی اختلافات کو لے کر ہم اتنے دور چلے جاتے ہیں کہ ایک بڑی دراڑ پیدا ہو جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ امتِ مسلمہ کی وحدت باہمی مواخات اور اتفاق و اتحاد کے لئے زہرِ قاتل ہے۔

ان اختلافات کو اتنا بڑھا چڑھا کر اپنانا اور ان کی بنیاد پر دوریاں پیدا کرنا کسی بھی طرح مستحسن کام نہیں ہے اس سے بہتر یہ نہیں کہ ہم ان اختلافات کو بنیاد بنانے کی بجائے ان باتوں کو بنیاد بنا لیں جو ہمارے درمیان مشترک ہیں مذاہب اور تحریکوں میں شاخیں اور دھارے ہمیشہ الگ الگ ہوتے رہے ہیں بلکہ نسلِ انسانی میں ایسے کسی بھی گروہ کا وجود ناممکن ہے جن میں کسی نہ کسی مرحلے پر کچھ اختلافات نہ پیدا ہوتے ہوں لیکن مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے مابین جو اختلافات ہیں وہ ایسے ہر گز نہیں جو ہمیں ایک امت بننے سے روک سکیں اور اگر وہ اختلافات اتنے اہم ہوتے تو سب ایک ہی امت میں شمار نہ ہوتے سب مسلمان ہیں، سب کا خدا ایک، رسول ایک، کتاب اور شریعت ایک، قبلہ ایک یعنی جو بھی بنیادی چیزیں ہیں وہ سب مشترک ہیں تو ہمیں چھوٹی باتوں کو چھوڑ کر بڑی باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ان باتوں کو لے کر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار نہیں ہونا چاہئے جو ہمیں ایک امت ہونے میں حائل نہیں ہیں بلکہ مشترکہ معاملات کو اہمیت دینی چاہئے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں ، یکجا کرتے ہیں اور ایک لڑی میں پروتے ہیں۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دینِ فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا، جو تمام سابقہ مذاہب کی خوبیوں سے بھی مزین ہے۔ مشہور برطانوی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شاہ کے اعتراف سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جینئین اسلام میں وہ لکھتے ہیں آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب برطانیہ یا پورے یورپ میں حکومت کرنے کا موقع پا سکتا ہے تو وہ مذہب اسلام ہی ہو سکتا ہے۔ مین نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہی صرف ایک ایسا مذہب جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانے میں قابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر امتِ مسلمہ جن اختلافات، نسلی، لسانی اور گروہ بندیوں پر مبنی عصبیت اور اختلافات کا شکار ہے انہیں ترک کئے بغیر عالمی سطح پر اتحاد و یکجہتی اور فکری و نظریاتی ہم آہنگی کا تصور بھی ممکن نہیں امتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امت کے زوال و انحطاط کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات، فرقہ بندی اور اندرونی انتشار تھا جس نے ان کی دوسری ڈیفنس لائن یعنی اندرونی محاذ کو بے حد کمزور کر دیا۔ سعودی ایران تعلقات میں پیش رفت ایک مثبت کوشش ہے جس کے امتِ مسلمہ پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

محمد بن سلمان کی مسلم امہ کے امن و اتحاد کے لئے کوششیں” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں