کوہ پیمائی اور نیپالیوں کا بزنس ماڈل

پسِ منظر:

دُنیا کے کُل 14 آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کوہ پیمائی کی کوششوں کی تاریخ تقریباً 125 سال پُرانی ہے۔ نانگا پربت وہ پہاڑ ہے جس پر سب سے پہلے 1895 میں کوہ پیمائی کا آغاز ہوا لیکن سب سے پہلے سر ہونے والا آٹھ ہزاری پہاڑ Annapurna-I تھا جو سال 1950 میں سر ہوا۔ نانگا پربت پر 1895 سے لیکر 1953 تک جتنی بھی باقاعدہ مُہم جُوئی کی گئی اُن سب ایکسپیڈیشنز میں تقریباً تمام ہی کوہ پیما مر جاتے رہے اور اسی وجہ سے اس پہاڑ کا نام The Killer Mountain رکھ دیا گیا۔ پھر 1953 میں ایک معجزہ ہوا اور آسٹریا کے کوہ پیما Hermann Buhl نے حیران کُن طور پر ڈرامائی انداز میں تنِ تنہا نانگا پربت کو سر کر لیا۔ یہ کسی بھی آٹھ ہزاری پہاڑ کو اکیلے یعنی solo سر کرنی کی سب سے پہلی اور شاید آج تک کی واحد مثال ہے۔ گو کہ سوئس الپائنسٹ Ueli Steck نے بھی Annapurna South کو 2013 میں solo سر کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ دعویٰ کچھ لوگوں کے ہاں متنازعہ تھا کیونکہ Ueli اس بارے کوئی تصویری ثبوت نہ پیش کر سکا تھا اور بتلایا کہ اُسکا کیمرہ کہیں گر گیا تھا تاہم 2017 میں Nuptse پہاڑ پر ایک اور solo کوشش میں Ueli Steck کی موت واقع ہو گئی بعد ازاں شاید احتراماً کسی نے اس دعویٰ کی تحقیق نہیں کی۔ نانگا پربت سر ہونے سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل نیوزی لینڈ کے Sir Edmund Hillary نے نیپالی شرپا Tenzing Norgay کے ساتھ دُنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا تھا لیکن نانگا پربت کے سر ہونے کے کارنامے کی حیثیت جُداگانہ ہی رہی۔ ٹھیک ایک سال بعد 1954 میں اٹالینز نے پاکستانی پورٹر امیر مہدی کی مدد سے کے۔ٹو کو بھی سر کر لیا تاہم اِس کارنامے کے ساتھ ایک تاریخی بَددیانتی اور زیادتی پر مبنی واقعہ بھی جُڑا ہوا ہے جو آج تک کے۔ٹو سر کرنے والے دونوں اٹالینز کے نام پر ایک بَدنُما داغ ہے۔ اِس واقعے کی تفصیل BBC کے آرٹیکل
“Left Out to Freeze on K2 & Forgotten”
میں پڑھی جاسکتی ہے۔

Nanga Parbat
1953 اور 1954 کے بعد آٹھ ہزاری خصوصاً دو پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں یعنی نانگا پربت اور K2 پر بہت کم اور کئی کئی سالوں کے وقفوں کے بعد مُہم جُوئی ہوئی۔ تاہم اس دوران ماؤنٹ ایورسٹ اور نیپال کے باقی آٹھ ہزاری پہاڑ کوہ پیمائی کےلیے بہت فیورٹ رہے۔ دُنیا زیادہ تر نیپال میں جاتی تھی کیونکہ وہاں کے 9 آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کوہ پیمائی قدرے آسان تھی۔ اُدھر پاکستانی 5 آٹھ ہزاری پہاڑ دُنیائے کوہ پیمائی کی نظروں سے اِس لیے بھی اوجھل تھے کیونکہ اِن تمام پہاڑوں پر کوہ پیمائی تکنیکی اعتبار سے مُشکل تھی اور کوہ پیمائی کے فن کو باقاعدہ سیکھے بغیر اُن پر قسمت آزمائی خُود کُشی کے مُترادف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2010 تک جہاں ماؤنٹ ایورسٹ سمیت نیپالی آٹھ ہزاری پہاڑ ہزاروں بار سر کیے جا چُکے تھے اور اکیلے ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ پر کُل 5000 کے قریب سمٹس ہو چُکی تھیں وہاں 5 پاکستانی پہاڑوں پر کُل ملا کر 1500 سمٹس بھی نہیں ہو پائی تھیں۔
سال 2010 تک نانگا پربت کُل 322 بار سر ہوا تھا جن میں سے صرف 7 یا 8 نیپالی تھے اور کے۔ٹو کُل 302 بار سر ہوا تھا جن میں سے نیپالی شرپاؤں کی سمٹس محض 18 تھیں۔ یُوں نیپالی صرف اپنے پہاڑوں کے ہی چیمپیئن سمجھے جاتے تھے جبکہ پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر گلگت- بلتستان خصوصاً سکردو, ہوشے, سدپارہ گاؤں اور شمشال گاؤں کے کوہ پیماؤں اور ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز HAP’s کا راج تھا۔ یہیں سے کوہ پیمائی کے جدید دور کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ اگر آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کامیاب کوہ پیمائی کی تاریخ مُرتّب کی جائے تو میری ذاتی رائے کے مطابق سال 1950 میں Annapurna-I (کسی بھی آٹھ ہزاری پہاڑ کی پہلی سمٹ) سے لیکر 2010 تک کا 60 سالہ عرصہ پہلا دور قرار دیا جا سکتا ہے اور سال 2010 کے بعد کوہ پیمائی کے جدید دور کا آغاز ہوتا ہے۔

کوہ پیمائی کا دورِ جدید اور نیپالیوں کی اجارہ داری کا آغاز :

جیسا کہ مَیں نے اُوپر عرض کیا ہے کہ کوہ پیمائی کی تاریخ کے ایک ادنیٰ سے طالبعلم کی حیثیت سے مَیں ذاتی طور پر 1950 سے 2010 تک کے 60 سالہ عرصے کو دورِ اوّل اور 2010 کے بعد کی کوہ پیمائی کو دورِ جدید گردانتا ہوں۔ چنانچہ جہاں دورِ اوّل ہمالیہ اور قراقرم کے آٹھ ہزاری پہاڑوں پر یورپی کوہ پیماؤں کی اجارہ داری, نیپالیوں کی humiliation اور پاکستانی پورٹرز کو یکسر نظرانداز کیے جانے سے عبارت ہے وہاں کوہ پیمائی کا دورِ جدید ایک نئی کروٹ لیکر شروع ہوتا ہے۔

Nepali's on mount everest
دورِ اوّل میں نیپالی شرپاؤں کی وہ نسل جو Tenzing Norgay کی ماؤنٹ ایورسٹ سمٹ کے باوجود سالہا سال گوروں کے مُلازموں کے طور پر دوسرے درجے کے انسانوں کے طور پر پہاڑوں میں کام کرکے اپنی روزی روٹی کما رہی تھی اُنہی کی اگلی نسل نے اپنی اس humiliation کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ نیپال کے DoT یعنی ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم نے اس پر باقاعدہ کام کیا اور شرپاؤں کی نئی نسل نے انٹرنیشنل ماؤنٹین گائیڈز جیسے بہترین یورپی کوہ پیما اداروں سے فنِ کوہ پیمائی راک کلائمبنگ, آئس کلائمبنگ اور سرٹیفائیڈ ماؤنٹین گائیڈز کے کورسز کیے۔ DoT نے بہترین قانون سازی کی اور نیپال میں کوہ پیمائی کو باقاعدہ ایک ایسی صنعت کا درجہ دے دیا جس کے بغیر اب یورپین بھی کوہ پیمائی کرنے کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ اُدھر پاکستان میں الپائن کلب آف پاکستان جو سالہا سال سے بطور عُضوِ مُعطّل محض کلائمبنگ پرمٹ جاری کرنے والی ایک نیم سرکاری باڈی تک محدود ہو چُکا تھا اُس نے مزید چُپ سادھ لی۔ نہ تو فنِ کوہ پیمائی کی عالمی درجے کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا اور نہ ہی گلگت۔بلتستان کے پورٹرز کو empower کر سکے۔ جبکہ پورٹرز کمیونٹی بھی بلتی اور شمشالی گروہوں میں بٹ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیپالی شرپاؤں نے پاکستان میں بھی قدم جمانا شروع کر دیے۔ وہی نیپالی جن کے شرپاؤں نے پچھلے 60 سال کے دوران نانگا پربت کی 322 سمٹس میں سے صرف 7 اور کے۔ٹو کی 302 سمٹس میں سے محض 18 سمٹس کر پائے تھے اُنہوں نے 2010 کے بعد اپنی بہترین تربیت کے بَل بُوتے پر کے۔ٹو اور نانگا پربت پر یلغار کردی۔
اِس ضمن میں چند اعداد و شُمار مُلاحظہ کیجیے۔۔۔
K2:
دورِ اوّل (60 سال):

Nepali's on k2

تمام سمٹس: 302
نیپالی شرپاؤں کی سمٹس: 18
نیپالی سمٹس کا تناسب: % 5.96

دورِ جدید (2010 تا حال)

تمام سمٹس: 248
نیپالی شرپاؤں کی سمٹس: 114 تقریباً
نیپالی سمٹس کا تناسب: %45.96

Nanga Parbat:

Nepali's on Nanga Parbat

دورِ اوّل (60 سال):

تمام سمٹس: 322
نیپالی شرپاؤں کی سمٹس: 7

نیپالی شرپاؤں کی سمٹس: 18
نیپالی سمٹس کا تناسب: % 2.17

دورِ جدید (2010 تا حال)

تمام سمٹس: 56
نیپالی شرپاؤں کی سمٹس: 23
نیپالی سمٹس کا تناسب: %44.64

اِن اعداد و شُمار سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ نیپالیوں نے دورِ جدید کی کوہ پیمائی میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنہ سکّہ چلا لیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر ہونے والی سمٹس میں 2 سے 5 فیصد حصّہ ڈالنے والی شرپا کمیونٹی کیا اچانک ایسے ہی 44/45 فیصد پر پہنچ گئی یا اس کے پیچھے کوئی خاص عوامل کارفرما ہیں?
اس سوال کے جواب سے جُڑے نیپالیوں کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ آئیے اُنکا جائزہ لیتے ہیں۔
جب نیپالی شرپاؤں کا بُرا دور گُزر رہا تھا جس میں اُنہیں یورپین کوہ پیماؤں کی جانب سے تضحیک آمیز رویّوں کا سامنا تھا اور اُنہیں دوسرے درجے کے انسان سمجھا جاتا تھا اُسی دوران شرپاؤں کی پیدا ہونے والی نئی نسل یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ آج کے دور کے 25 سے 30 کامیاب ترین شرپا کلائمبرز, گائیڈز اور لیڈ کلائمبرز جن میں چھانگ داوا شرپا, منگما جی, منگما گیابو شرپا, نرمل پُورجا, سانو شرپا, گَیل جی شرپا, تاشی لکپا شرپا منگما ڈیوڈ شرپا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں یہ تمام اُس وقت لڑکپن میں تھے کیونکہ اب انکی عُمر 30 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔ چنانچہ جب اِنہوں نے اپنے سے بڑی نسل کی humiliation اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ کس طرح پہاڑوں میں روزی کمانے کی خاطر ان کے آباو اجداد نسلوں سے پِستے آ رہے ہیں تو اِن سب نوجوانوں نے جو کہ تعلیم یافتہ تھے اپنی اس کمزوری کو طاقت بنانے کی ٹھانی اور نیپالی ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم DoT کے ساتھ مل کر اپنی بہترین تربیت کے بَل بُوتے پر ایک یکسر نیا بزنس ماڈل وضع کیا اور سیون سمٹس ٹریکس, امیجن نیپال, پائنیئر ایڈونچر جیسی دیگر بہت سی کلائمبنگ کمپنیاں بنائیں اور یورپی مُہم جُو کمیونٹی کو اپنے بہترین کاروباری انداز سے اپنی طرف متوجہ کیا, عام ایڈونچررز سے لیکر پروفیشنل ہارڈ کور کلائمبرز کےلیے الگ الگ درجے کے مختلف پیکجز متعارف کروائے اور اِس بزنس ماڈل کو نیپال میں سال 2012 میں لانچ کر دیا اور سال 2018 تک اِسے نیپال میں کامیاب کرکے عروج ہر پہنچا دیا۔ نیپالیوں کے بزنس ماڈل کو انکی سرزمین پر موجود آٹھ ہزاری پہاڑوں کی ہیئت اور لوکیشن نے بھی فائدہ دیا اور چونکہ ان پہاڑوں پر چڑھنا قدرے آسان بھی تھا اور ماؤنٹ ایورسٹ کی شکل میں ایک قدرتی فائدہ یہ بھی تھا کہ یورپ کے جو لوگ شُہرت اور summit glory کے شوقین تھے اُنہیں دُنیا کی بُلند ترین چوٹی سر کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی نہ کہ کے۔ٹو جیسی مُشکل ترین اور وہ بھی درجہ بندی میں دوسرے نمبر والی چوٹی۔ ہیروازم اور شُہرت کا بُھوکا ہر مُہم جُو یہ چاہتا ہے کہ اُس کے نام کے ساتھ دُنیا کی بُلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا کارنامہ جُڑ جائے۔ چنانچہ 2018 تک نیپالی شرپا اپنا بزنس ماڈل نیپال میں کامیاب کر چُکے تو اُنہیں خیال آیا کہ کیوں نہ اب پاکستانی پہاڑوں کا رُخ کیا جائے۔ اگر اُس وقت تک بھی پاکستانی اربابِ اختیار کو ہوش آجاتا اور وہ سدپارہ, سکردو, ہوشے اور شمشال کے نوجوان کوہ پیماؤں اور HAP’s کو تربیت دلوا کر فنِ کوہ پیمائی کے ماہر بنا دیتے تو یقیناً نیپالی اِدھر کا رُخ نہ کرتے۔ مادی دُنیا کی ایک خاصیت ہے کہ یہاں سپیس یعنی خُلاء قائم نہیں رہ سکتا, جونہی خُلاء پیدا ہو دوسری چیزیں وہ جگہ گھیر لیتی ہیں۔ پاکستانی کوہ پیما کمیونٹی اور پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں نے خُلاء چھوڑ دیا تھا لہٰذا اُسے پُر کرنے کےلیے نیپالی آن وارد ہوئے۔ 2017 میں چھ نیپالی شرپاؤں نے دو پاکستانیوں علی سدپارہ اور سرباز خان کو لیکر نانگا پربت کو پہلی بار موسمِ خزاں یعنی Autumn سیزن کےلیے کھولا اور اکتوبر میں سر کر لیا۔ سال 2018 میں اُنہوں نے K2 پر یلغار کی اور تاریخ کی سب سے زیادہ تعداد یعنی 62 سمٹس کروا دیں۔ لیکن ابھی بھی اُنکی مُکمّل طریقے سے لانچنگ باقی تھی اور پاکستان میں کوہ پیمائی کے کاروبار پر مُکمّل قبضہ باقی تھا اور اِس مقصد میں اُنکی راہ میں کوئی خاص رُکاوٹ نہ تھی بس ایک مُحمّد علی سدپارہ ڈٹا ہوا تھا جس کی نانگا پربت پر اجارہ داری تھی اور وہ واحد کوہ پیما تھا جس نے نانگاپربت کو 4 بار یعنی چاروں موسموں میں سر کر رکھا تھا۔ 2016 میں موسمِ سرما میں نانگا پربت کو سر کرنے کا عظیم ترین کارنامہ سرانجام دینے والے عظیم علی سدپارہ کی صلاحیّتوں کے یورپی کوہ پیما تو معترف تھے ہی نیپالی شرپا بھی علی سدپارہ کو ایک لیجنڈ کوہ پیما مانتے تھے۔ سال 2004 سے سال 2019 تک علی سدپارہ نانگا پربت پر بلا شرکتِ غیرے چھایا رہا۔ سال 2021 میں جب کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی مختلف ایکسپیڈیشنز کا اعلان ہوا تو عام خیال یہی تھا کہ مُحمّد علی سدپارہ ہی یہ کارنامہ سرانجام دے گا اور حالات تقریباً اُسی طرف جارہے تھے کہ علی سدپارہ کے ساتھی اور ٹیم لیڈر جان سنوری سے ایک ٹیکنیکل غلطی ہوئی اور اُنہوں نے باوجود اِس کے کہ وہ نیپالیوں کی نسبت زیادہ ایکلائماٹائزڈ تھے ایک بہت اہم weather window جو کہ 14 تا 17 جنوری 2021 کے درمیان ملی تھی وہ مِس کر دی جسے نیپالی شرپاؤں کی تین ٹیموں کے 10 کوہ پیماؤں نے غنیمت جان کر استعمال کیا اور کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کر کے تاریخ رقم کردی۔ بعد ازاں 5 فروری کو علی سدپارہ بھرپُور اعصاب شکن کوشش کے دوران کے۔ٹو پر اپنے باقی دو ساتھیوں سمیت لاپتہ ہوگیا۔ یہ واقعہ نہ صرف پاکستانی قوم, پاکستانی کلائمبنگ کمیونٹی اور علی سدپارہ کی فیملی کےلیے ایک عظیم سانحہ ثابت ہوا بلکہ گویا نیپالی شرپاؤں اور اُنکی کمپنیوں کےلیے اپنے بزنس ماڈل کو پاکستان میں نافذ کرکے یہاں سے کمائی کر کےقیمتی زرِ مبادلہ سمیٹ کر نیپالی معیشت کو مضبوط بنانے کا رستہ بھی بالکل صاف ہو گیا۔ کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کے تاریخی کارنامے کے بعد اُسی سال یعنی 2021 کے موسمِ گرما کے سیزن میں نیپالی شرپاؤں نے کے۔ٹو کو اپنے ماہر لیڈ کلائمبرز کی مدد سے فکسڈ لائن لگا کر اور مصنوعی آکسیجن کے کنستروں کے کنستر پہنچا کر کے۔ٹو بیس کیمپ پر اُن تمام کوہ پیماؤں کی منڈی لگا دی جو محض شُہرت اور summit glory کے دلدادہ تھے۔ چنانچہ سال 2021 میں بھی 50 سے زائد کوہ پیماؤں نے نیپالی شرپاؤں کی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ fortune favours the brave
اسی کے مِصداق گلوبل وارمنگ کے ذریعے آٹھ ہزاری پہاڑوں کی upper slopes پر پیدا ہونے والی آئس فارمیشن کی تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیّرات نے بھی نیپالی بزنس ماڈل کی بھرپُور مدد کی اور سال 2021 میں کے۔ٹو کی upper slopes اور مُشکل ترین سیکشن bottleneck پر deep snow نہ ہونے کا فائدہ بھی نیپالی شرپاؤں نے اُٹھایااور سب کلائنٹس کو آسانی کے ساتھ کے۔ٹو سر کروا کے دُنیا بھر میں نیپالی کمپنیوں کی %100 کامیابی کی شرح کا چرچا کر دیا نتیجتاً اِس سال 2022 میں کے۔ٹو, براڈ پِیک اور نانگا پربت پر کوہ پیمائی کےلیے ریکارڈ لوگ آئے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں خصوصاً کے۔ٹو اور نانگا پربت پر رسّیوں کی فکسڈ لائن نصب کرنے کی صلاحیت صرف نیپالی کمپنیوں کے پاس ہے۔ تمام پاکستانی کمپنیاں صرف Base Camp Services مُہیّا کرتی ہیں یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ریکارڈ تعداد میں کلائمبنگ پرمٹ جاری ہونے کا فائدہ پاکستانی معیشت کو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ڈالرز نیپالی کمپنیاں کماتی ہیں اور اب نیپالی شرپا اپنی %100 فیصد کاسٹ لیکر اُس میں سے %25 پاکستانی پورٹرز کو دے کر سروسز لیتے ہیں اور فکسڈ لائنز خُود نصب کرکے , مصنوعی آکسیجن بیچ کر لوگوں کو سمٹس کروا کر خُوب کمائی کر رہے ہیں۔ اگر کوہ پیمائی کو ریگولیٹ کرنے والی پاکستانی سرکاری و نیم سرکاری باڈیز, کوہ پیمائی کی سروسز دینے والی کمیونٹی اور پاکستان کی ایڈونچر کمیونٹی اب بھی summit glory اور fake heroism کے پیچھے بھاگنے والوں کو اپنا ہیرو مانتی رہے گی تو وہ دن دُور نہیں کہ ہمارے پہاڑوں پر کلائمبنگ پرمٹ بھی نیپالیوں کی مرضی سے جاری ہوں۔
گو کہ مُجھے اپنی اِن بےباک تحریروں کی وجہ سے بہت سے دوستوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن آپ ذرا ایک لمحے کےلیے سنجیدگی سے سوچیے کہ اسوقت ہماری زنبیل میں ہے کیا?
علی سدپارہ کی وفات کے بعد اُسکا بیٹا ساجد سدپارہ اپنی فیملی کی روزی روٹی کمائے یا پھر ہزاروں ڈالرز خرچ کرکے تربیت حاصل کرے۔
سرباز خان جتنے کماتا ہوگا یقیناً اُتنے بس اپنی 14 چوٹیاں سمٹ کرنے کے مشن پر خرچ کر لیتا ہوگا۔
عبدل جوشی تربیت یافتہ کوہ پیما ضرور ہے لیکن اُسے سپانسر کون کرے گا اُسکے ذاتی فن کو آگے کون بڑھائے گا۔
شہروز کاشف بس کم عُمر ترین کوہ پیما کی حیثیت سے تمام 14 چوٹیاں سر کرنے کے انفرادی مشن پر ہے۔ اِس کے علاوہ اُسکا کوئی اجتماعی مشن نہیں ہے۔
شمشال کے شاہین بیگ, قدرت علی اور رحمت اللہ بیگ جیسے کلائمبرز ضائع ہو رہے ہیں۔
ہوشے گاؤں اور سدپارہ گاؤں کے نوجوان حکومتی عدم توجہ, فنڈز کی کمی اور تربیتی سہولیات کے فُقدان کے شکار کے ساتھ ساتھ ذرائع روزگار کی تلاش میں متفکّر بھی ہیں۔
غرضیکہ ہر طرف ایک دوڑ سی لگی ہے جسکی کم از کم پاکستانی کلائمبنگ کمیونٹی مُتحمّل نہیں۔ اُوپر سے نیپالیوں نے سب سے بڑا ظُلم یہ کیا ہے کہ دُنیا بھر کے نوجوانوں کو فنِ کوہ پیمائی حاصل کرنے کے شوق سے دُور کرکے اُنہیں اپنے ساتھ صرف 14 چوٹیاں سر کرنے پر لگا دیا تاکہ نہ کوئی نوجوان تربیت حاصل کرے اور نہ ہی independent climb کا سوچے بس نیپالی شرپاؤں کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کا ہی مُنتظر رہے۔
اِسوقت نیپالی بزنس ماڈل اِس قدر کامیاب ہو چُکا ہے کہ یکم جولائی 2022 کو نانگا پربت سر کرنے والی اور صرف ایک سال کے اندر اندر 8×8000ers سر کرنے والی 21 سالہ برٹش کوہ پیما خاتون Adrie Brownlee نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں لکھا ہے کہ اگر گَیل جی شرپا اُنکے گائیڈ نہ ہوتے تو وہ نانگا پربت پر ایک انچ بھی نہ چل سکتی۔ ذرا سوچیں کہ 8 آٹھ ہزاری چوٹیاں سر کر چُکنے کے بعد بھی Independent Climb کرنے کی صلاحیت ناپید ہے۔
نانگا پربت پر جولائی 2022 کے پہلے 5 دن میں 27 سمٹس ہو جانے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ نیپالی شرپاؤں کی پیشہ ورانہ مہارت ہے جس کی بدولت اُنہوں نے کامیابی کے ساتھ فکسڈ لائن لگائی دوسری وجہ گلوبل وارمنگ کا مثبت پہلو ہے۔ جس کی بدولت موسم فی الحال گرم, صاف اور بےتغیّر ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہونگے کہ برف کی خاصیت ہے کہ وہ ہمیشہ نیچے سے پِگھلتی ہے اور اُسکی بیرونی سطح قائم رہتی ہے۔ لہٰذا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آٹھ ہزاری پہاڑوں کی فی الحال ابھی نچلی تہوں کی آئس شیٹس پگھلی ہیں جبکہ بالائی سطحوں کی unstable snow کو طوفانی ہوائیں اور جَھکّڑ اُڑا کر lower slopes پر deposite کر چُکے ہیں۔ نتیجتاً پہاڑ کی upper slopes فی الحال ننگی ہیں جن پر چلنا قدرے آسان ہے۔ فکسڈ لائن پر بہترین صحت اور بہترین ایکلائماٹائزیشن کے ساتھ 7000 میٹر سے آکسیجن ماسک لگا لینے اور موسمی خطرات کی عدم موجودگی کے باعث اِسوقت نانگا پربت اُن کوہ پیماؤں کےلیے آسان ہے جو پچھلے دو تین ماہ سے نیپال میں کلائمبنگ کرتے آئے ہیں اور اِس عرصے کے دوران دو دو تین تین آٹھ ہزاری چوٹیاں پہلے ہی سر کر چُکے ہیں اور پھر فی الحال قسمت بھی اِن پہاڑوں پر اُنکا بھرپُور ساتھ دے رہی ہے۔ یہ سب اگرچہ اُنکی ایک حقیقی کوہ پیما کی حیثیت سے accomplishment تو نہیں البتہ ایک بہت بڑی achievement ضرور ہے۔
چنانچہ گلوبل وارمنگ کے منفی پہلو شروع ہونے سے پہلے پہلے یہ حکمتِ عملی بہترین ہے کہ جلد از جلد سمٹس کر لیں اور یہی نیپالی شرپا اپنے کلائنٹس سے کروا رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر مستقبل قریب میں عین ممکن ہے کہ برف مزید پِگھلے گی تو slab avalanches آئیں گے۔ تب خدانخواستہ ایسے واقعات عام ہو سکتے ہیں جیسا دو دن قبل Italian Dolomites پہاڑوں پر ہوا۔ Slab Avalanches, Seracs Fall, Glacial Melt اور Crevasses Widening کے قدرتی عوامل بہت تیزی سے رُونما ہونے کے چانسز مُستقبل قریب میں بہت زیادہ ہیں۔
چنانچہ ِان حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کےلیے مثبت اور بہترین حکمتِ عملی اپنا کر پاکستانی پورٹرز, گائیڈز اور کلائمبرز کی بہترین عملی تربیت کے اسباب پیدا کیے جائیں۔ نوجوان نسل کو فیک ہیروازم اور سمٹ گلوری کے عارضی نشے سے نکال کر نیپالیوں کی طرز پر فنِ کوہ پیمائی میں ماہر بنا کر اُنہی کے بزنس ماڈل کا مقابلہ کرنے کےلیے تیّار کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
اگر اب بھی ہوش کے ناخن لیے تو خاکم بدہن کوہ پیمائی کے میدان میں بھی ہم بھکاری بننے کے بہت قریب ہیں۔

و ما علینا الاالبلاغ۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں