پیسہ ہی سب کچھ نہیں

جب میں ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی تو سینئرز نے مجھے سمجھایا کہ ٹیوشن کی فیس ایڈوانس لیا کرو۔ لوگ آ خری مہینے کی فیس مار لیتے ہیں ۔ مجھے اپنی ہی محنت کی رقم مانگتے شرم آ تی تھی اور اس بات سے آ ج تک بھی نجات نہیں ملی۔

خیر میں حسب روایت فیس نہیں مانگتی تھی۔ سٹوڈنٹ آ نا شروع ہو جاتا تھا۔ مہینہ گزرتا ، دو مہینے گزرتے، تین مہینے گزرتے ۔ مجھے سٹوڈنٹ سے فیس کا کہتے شرم آ تی۔ میں سوچتی کہ جب بچہ آ رہا ہے پڑھنے تو گھر والوں کو پتہ ہی ہو گا کہ فیس بھی دینی ہوتی ہے۔

جس طرح اس کے ماں باپ کو اپنا گھر چلانے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جو بندہ اپنا وقت نکال کر انکے بچے کو پڑھا رہا ہے وہ بھی شوقیہ تو محنت نہیں کر رہا ہو گا۔ وہ بھی کسی ضرورت کے تحت ہی ٹیوشن پڑھا رہا ہو گا۔
اس مروت اور شرم نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اور آ ج بھی اس چیز پر قابو نہیں پا سکی۔

سارا حساب کتاب یہیں پڑا رہ جائے گا۔ بس یہی سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہوں۔

اب یہ بات یوں یاد آ ئی کہ بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ انکے ساتھ فراڈ ہوتے ہیں ۔ لوگ رقم لیتے ہیں ، سروس دینے سے پہلے بلاک کر دیتے ہیں۔ چیز آ رڈر کی اس میں گڑ بڑ کر دیتے ہیں ۔ جہاں اکثریت خوف خدا رکھنے والوں کی ہے وہاں چونا لگانے والے بھی مل جاتے ہیں ۔

میری درخواست ہے کہ چھوٹی چھوٹی رقمیں بچانے کے لئے اپنے کردار کی عظمت کم نہ کریں۔ کسی کا حق نہ رکھیں۔ جس طرح بزنس کرنے والا پیسہ کمانا چاہتا ہے اسی طرح سروس دینے والا، پروڈکٹ خریدنے والا بھی اپنی ضرورت کے لئے کام کر رہا ہوتا ہے۔
آ ج کل جو پیسہ مارتا ہے، حق رکھتا ہے وہ خود کو بہت سمارٹ سمجھتا ہے۔ یہ سوچ درست نہیں ہے۔
خسارے اگلے جہان کے بھی ہوتے ہیں ۔ وہاں انکو سہہ پائیں گے ؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں