‏الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے

‏الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے

سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں میں تیرا نام لکھا ہے

گلیوں میں اترتی ہیں ملائک کے قطاریں
احساس کی بستی میں عجب جشن بپا ہے

ہے قریۂ ادراک منور تیرے دم سے
ہر ساعتِ خوش بخت جہاں نغمہ سرا ہے

سن لے گا مرا ماجرا تُو بھی کہ ازل سے
پیغام برِ دیدہ و دلِ موجِ صبا ہے

ہیں نذر تیری بار گہہِ ناز میں افکار
تُو مرکزِ دلدارئ اربابِ وفا ہے

اب کون حدِ حُسنِ طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہِ دستِ دعا ہے

ہے تیری کسک میں بھی دھمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ میرا قریۂ جاں گونج اٹھا ہے

اعصاب پہ حاوی ہے سدا ہیبتِ اقراء
جبریلِ مودّت کو یہ دل غارِ حرا ہے

آیات کے جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جُڑا ہے

اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے

خورشید تیری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب تیرا ریزۂ نقشِ کفِ پا ہے

تلمیحِ شبِ قدر ترا عکسِ تبسم
” نوروز ” ترا حُسنِ گریبانِ قبا ہے

ہر صبح ترے فرقِ فلک ناز کا پرتَو
ہر شام تیرے دوشِ معلّٰی کی رِدا ہے

تارے ترے رہوار کے قدموں کے شرارے
گردوں ترا دریُوزہ گرِ آبلہ پا ہے

یا تیرے خد و خال سے خیرہ مہہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اوڑھ لیا ہے

یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے

یٰسین ترے اسمِ گرامی کا ضمیمہ
ہے نون تری مدح ، قلم تیری ثنا ہے

” والیل ” ترے سایۂ گیسُو کا تراشہ
” والعصر ” تیری نیم نگاہی کی ادا ہے

فاقوں سے خمیدہ ہے سدا قامتِ درباں
ٹھوکر میں مگر سلسلۂ ارض و سما ہے

غیروں پہ بھی الطاف تیرے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے

دل میں ہو تیری یاد تو طوفاں بھی کنارا
حاصل ہو تیرا لطف تو صرصر بھی صبا ہے

لمحوں میں سمٹ کر بھی تیرا درد ہے تازہ
صدیوں میں بکھر کر بھی تیرا عشق نیا ہے

دیکھوں تو تیرے در کی غلامی میں ہے شاہی
سوچوں تو تیرا شوق مجھے ” ظلِّ ہما ” ہے

رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کِیا ہے

خالق نے قسم کھائی ہے اس ” شہرِ اماں ” کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے وِرد کِیا ہے

یہ قوسِ قزح ہے کہ سرِ صفحۂ آفاق
برسات کی رُت میں تیرا محرابِ دعا ہے

ہر سمت تیرے لطف و عنایات کی بارش
ہر سُو تیرا دامانِ کرم پھیل گیا ہے

اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تری مدحت؟
یہ کم تو نہیں ہے کہ تُو محبوبِ خدا ہے

سورج کو ابھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی
بے ذر کو ابوذر تیری بخشش نے کِیا ہے

ہے موجِ صبا یا تیری سانسوں کی بھکارن؟
ہے موسمِ گل یا تیری خیراتِ قبا ہے

خورشیدِ قیامت بھی سرفراز بہت ہے
لیکن تیرے قامت کی کشش اس سے سِوا ہے

زم زم تیرے آئینِ سخاوت کی گواہی
کوثر تیرا سرنامۂ دستورِ عطا ہے

جلتا ہوا مہتاب ترا رہروِ بے تاب
ڈھلتا ہوا سورج تیرے خیمے کا دِیا ہے

ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر تیرے ہاتھوں میں لکھا ہے

اترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے

محشر میں پرستار ترے یوں تو بہت تھے
صد شکر مرا نام تجھے یاد رہا ہے

اے گنبدِ خضرٰی کے مکیں میری مدد کر
یا پھر یہ بتا ! کون میرا تیرے سِوا ہے؟

بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے

محسن نقوی

اپنا تبصرہ بھیجیں