مودی کے دورۂ امریکا ؟

انڈین وزیراعظم نریندرمودی نے بائیس سے پچیس جون تک ریاست ہائے متحدہ امریکا کا سرکاری دورہ کیا ، جسے ہر دو ممالک کے مفادات میں یقینی طور پر کامیاب تاریخی اور فقید المثال قراردیاجاسکتاہے۔ اپنی پہلی اور دوسری ٹرم میں وزیراعظم مودی نے پانچ بلکہ سات امریکی دورے کیےہیں لیکن ایسی بڑی کامیابیاں اسے پہلی مرتبہ ملی ہیں یوں محسوس ہورہا تھا کہ امریکیوں نے اس پر وارد ہونے والے ہر اعتراض کو نظرانداز کردیا ہے سابق امریکی صدر باراک اوباما نے عین موقع پر بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی مناسبت سے سوالات اٹھانے کی فرمائش کی اور بائیڈن انتظامیہ پر ان کا اثر رسوخ بھی سب پر واضح ہے مگر اس کے باوجود کم از کم صدر یا ان کی حکومت نے ایسا کوئی ایک سوال نہیں اُٹھایا،امریکی صدر اور انڈین وزیراعظم کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک مسلمان خاتون صحافی نے جب وزیراعظم مودی سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی آزادی کے حوالےسے سوال اٹھایا تو پرائم منسٹر مودی نے اس کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور کہا بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت میں یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اپنے شہریوں سے اس نوع کا کوئی امتیازی سلوک کرسکیں، کسی کا مذہب یا عقیدہ کیا ہے ، نسل ، جنس یا عمر کیا ہے، کسی بھی معاملے میں تفریق برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ورنہ جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے روایتی نعرے کو دہرایا، سب کا اعتماد سب کی فلاح و کامیابی وغیرہ یعنی ہم بلاامتیاز سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔امریکیوں کو بھارتی حکومتوں کےساتھ معاملہ کرتے ہوئے سردجنگ کے دور سے اس نوع کی شکایات رہی ہیں کہ اس کا جھکاؤ جس طرح پہلے سوویت یونین کی طرف تھا اب روس کی طرف ہے بالخصوص یوکرین پر روسی حملے کے حوالےسے امریکا بجا طور پر چاہتا ہے کہ اپنے دیگر اتحادیوں کی طرح وہ انڈیا کوبھی قائل کرے کہ اگر وہ روسی جارحیت کی مذمت نہیں کرتا تو بھی تجارتی تعلقات میں ٹھہراؤ لائے لیکن اس دورے میں اس نوع کا بھی کوئی مطالبہ نہ کیا گیا البتہ اتنا منوالیا گیا کہ بھارت یوکرین کی علاقائی خودمختاری کا حامی ہے۔ یو این نیویارک کے وسیع لان میں یوگا کے عالمی دن منائے جانے اور وہاں مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے سرجھکانے سے لے کر واشنگٹن میں صدر بائیڈن کے ساتھ اوول آفس کی میٹنگز، وائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈنر، کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور محکمہ خارجہ کے ظہرانے تک تمام تقریبات پرجوش تھیں ،اس گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس سے خطاب کے دوران اراکین کانگریس نے پندرہ بار کھڑے ہوکر پچھتر مرتبہ تالیاں بجائیں، ہر جگہ جےہند، بھارت ماتا اور مودی مودی کے نعرے گونجتے رہے، وائٹ ہاؤس کی تقریب میں جس طرح کوئی آٹھ ہزار کے قریب انڈین امریکیوں کو مدعو کیا گیا اس کی سوائے اس کے کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ پوپ جان پال کو اس نوع کا پروٹوکول فراہم کیا گیا تھا۔ مودی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہواکہ جس پر کبھی امریکی ویزے کی بھی پابندی تھی ، اب وہ پہلا انڈین وزیراعظم ہے جس نے کانگریس سے دو مرتبہ خطاب کیا ، یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو حاصل ہے اور موجودہ خطاب کئی حوالوں سے متاثرکن تھا جس میں مودی نے مہاتما گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ کی انسانی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے آغاز کیا، انہوں نے انڈین سویلائزیشن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انڈیا امریکا تعلقات کی سمری اور موجودہ بدلے ہوئے حالات میں ان کی اہمیت واضح کی، امریکی نائب صدر کملا دیوی کا خصوصی طور پرذکر کرتے ہوئے چالیس لاکھ امریکن انڈنزکے تعمیر و ترقی اور تعلقات میںکردار کو واضح کیا اور اپنے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے اعزاز کو امریکا انڈیا طویل المدتی تعلقات کی بنیاد قرار دیا۔ امریکی قوم کی جمہوری جدوجہد کو سیلوٹ کیا۔ امریکا انڈیا مشترکہ اعلامیے کا جائزہ لینے سے قبل اس امرکا ادراک رہے کہ اس دورے میں مودی نے اپنی قوم کیلئے کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انڈیا چائنہ کی جگہ لینے جارہا ہے اور چائنہ میں امریکی سرمایہ کاری انڈیا منتقل ہونے والی ہے ،جس طرح اپنے خطاب میں مودی نے کہا کہ امریکا اور انڈیا کے درمیان تعاون کے لیے آسمان کی وسعت کی بھی حد نہیں ہوسکتی اور میں دونوں اقوام کو ایک ساتھ اونچا جاتے دیکھ رہا ہوں۔ صدر بائیڈن نے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی بات کرتے ہوئے بھارت کو تجارت اور موسمی تبدیلیوں کے علاوہ وہ حساس ٹیکنالوجی جو اس نے سوائے اسرائیل یا انگلینڈ کے آج تک کسی کو نہیں دی ،آج انڈیا کو پیش کی جارہی ہے فائٹر یا جیٹ طیاروں کے انجن بنانے کی ٹیکنالوجی اور اس کے ساتھ نیوکلیئر ٹیکنالوجی، اس سلسلے میں ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے معاہدے پر دستخط، ایک اور معاہدے میں کمپیوٹر کی مائیکروچپس بنانے والی کمپنی مائیکرون اپنے ٹیسٹنگ اور اسیمبلنگ پلانٹس کیلئے بھاری سرمایہ کاری کرے گی۔ ایپل کے چیف ایگزیکٹیو، گوگل کے سی ای او، مائیکروسافٹ کے سی ای او، فیڈکس کے سی ای او سے ہونے والی ملاقاتیں اسی سرمایہ کاری کے سفر کا حصہ ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ مینوفیکچرزکا چین پر انحصار کم ہوتے ہوئے یہ روابط انڈیا کی طرف منتقل ہوتے چلے جائیں ،بھارت تیزی سے خلائی طاقت بننے بھی جارہا ہے خلائی تعاون کے معاہدے آرٹیمس کے تحت دونوں ممالک آئندہ برس خلا میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن قائم کرنے کیلئے مشترکہ مشن بھیجیں گے، بھارتی خلائی پروگرام ناسا کے ساتھ مل کر کام کرے گا، جس کا مقصد 2025ء تک انسانوں کو چاند پر بسانے کی ایک کاوش بھی ہے امریکی ویزے کی انڈینز کیلئے سہولیات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے اس طرح تعلیمی حوالے سے بڑی بڑی امریکن یونیورسٹیاں اپنے کیمپس انڈیا میں قائم کرنے جارہی ہیں جہاں نہ صرف انڈیا بلکہ دیگر ممالک کے طلباء نسبتاً کم لاگت میں معیاری امریکی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اس حوالے سے QUAD یا چار ملکی اتحاد کے ممالک کا بھی خصوصی تذکرہ ہوا۔ امریکی، انڈیا کوآسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسی ہی اہمیت دے رہے ہیں جن کا گھیرا چائینہ کے گرد تنگ ہورہا ہے جبکہ زمینی طور پر سرحدیں صرف انڈیا کی ملتی ہیں اور وہاں تنازعات بھی ہیں جن پر جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اس وقت اصل ترجیح اکانومی کے حوالے سے ہے۔ امریکی قوم میں شعوری طور پر یہ اپروچ پائی جاتی ہے کہ انڈیا انہی جیسی کثیر المذہبی، ملٹی کلچرل ڈیموکریٹک سوسائٹی ہے ،جو فطری طور پر ان کی اتحادی ہے لہٰذا یہ تعاون اس حد تک بڑھنا چاہیے کہ انڈیا چائینہ کا ہم پلہ بن کرکھڑا ہوسکے۔ یہ تعاون محض مضبوط اکانومی یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تک محدود نہیں رہے گا امریکہ آنے والے ادوار میں لانگ ٹرم ریلیشن کے تحت چاہے گا کہ یواین کی سیکورٹی کونسل میں انڈیا کو مستقل ممبر بننے کیلئے بھی معاونت فراہم کرے اور یہ تعاون نیٹوپلس کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے، اگرچہ وائٹ ہاؤس کا یہ کہنا ہے کہ پرائم منسٹر مودی کے دورۂ امریکا کا چین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے چین کو کوئی پیغام بھیجا جارہا ہے، وائٹ ہاؤس میں مودی بائیڈن ملاقات کے بعد جاری ہونے والے طویل اعلامیے میں اگرچہ چین کا نام تو نہیں لیا گیا مگر دہشت گردی بالخصوص ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، ڈرونز انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال کا متحد ہوکر سامنا کرنے اور اتحادی ممالک کے درمیان طویل المدتی اسٹرٹیجک شراکت داری کو مستحکم بنانے کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان کا نام لے کر تنقید کی گئی ہے اس کا تفصیلی تجزیہ و جائزہ اگلی قسط میں۔(جاری ہے )

7/5/2023] Shoaib Sb Helper: جس طرح ہماری زبان کا محاورہ ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب میں جاتا ہے۔ ایک ہی حرکت امیر غریب کریں تو غصہ زیادہ غریب پر آتا ہے اور اکثر وہی پکڑے جاتا ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی صورت وہی سہتا ہے۔ ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ جس نوع کی ہلکی حرکت کوئی بھوکا ننگا کرلیتا ہے اس کی توقع رجے پجے ذمہ دار سے نہیں کی جاتی۔ واشنگٹن میں امریکی پریذیڈنٹ جوبائیڈن اور انڈین پرائم منسٹر نریندرامودی کے باضابطہ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے طویل مشترکہ علامیہ میں چین کا تو نام نہیں لیا گیا البتہ پاکستان کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے پائے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین وغیرہ کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ مشترکہ علامیہ میں امریکا اور بھارت نے عالمی دہشت گردی اور ہر نوع کی انتہا پسندی کی یک زبان ہوکر مذمت کرتے ہوئے متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے FATF سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کے لیے رقوم کے استعمال کو روکنے کی خاطراقدامات مزید تیز کرے، طالبان سے بھی طے شدہ شرائط پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ افغانستان ایک پرامن ملک بن سکے۔ پاکستان میں ظاہر ہے اس چیز کو ہر دو حوالوں سے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا ہے ایک تو اس پس منظر میں کہ پاکستان اپنے تئیں روزِ اول سے امریکا کا اتحادی چلا آرہا ہے جناح نے پاکستان بنتے ہی اس نوع کا ڈول ڈال دیا تھا اور پھر جب پنڈت نہرو کی مخصوص سوشلٹ اپروچ کے زیراثر انڈیا سویت یونین کے بہت قریب خیال کیاجاتا تھا یا اس نے مصری صدر جمال عبدالناصر کے ساتھ مل کر نان الائین مومنٹ کی بنیادیں استوار کی تھیں پاکستان اس وقت بغداد پیکٹ سیٹو اور سینٹو میں باضابطہ شمولیت اختیار کرتے ہوئے خود کو امریکی مفادات کی رکھوالی کا بڑا خدمتگار خیال کرتا تھا ہم نے پارٹیشن کے ساتھ ہی جو بھاری بھرکم آرمی ورثے میں حاصل کی تھی اُس کا لوڈ اٹھانے کی ہماری سکیم ہی اس نوع کی تھی کہ ہم مغربی اتحادی بن کر خدمات سرانجام دیں اور بدلے میں ثمرات سمیٹیں، ہماری دوسری تکلیف یہ بھی ہے کہ جمہوری دنیا، امریکا اور انڈیا جیسے ممالک جب عالمی یا اسلامی ٹیررازم کے حوالے سے انگلیاں ہماری طرف اُٹھاتے ہیں ہمیں اس کا ماسٹر مائنڈ سہولت کار یا ذمہ دار گردانتے ہیں تو ہمارا اضطراب یہ ہوتا ہے کہ اے دنیا والو ہمیں دہشت گرد یا ان کا حمایتی نہ سمجھو ہم تو خود اس کا شکار ہیں ہمارے اتنے فوجی اور اتنے زیادہ سویلین دہشت گردی کی وجہ سے جانیں گنوا چکے ہیں مگر کیا کریں دنیا ہماری ان دلیلوں کو اس لیے درخوراعتنا یا قابلِ قبول نہیں سمجھتی کہ جس برائی کی آپ نے خود آبیاری کی ہے اگر بارود کا کاروبار کرنے والے کے اپنے بچے اس میں جھلس جاتے ہیں تو یہ چیز وہ اپنے دفاع میں پیش نہیں کرسکتا کیونکہ یہ دھندہ اس نے خود اپنی چائس سے اختیار کیا تھا ہم کہتے ہیں نہیں یہ تو امریکی ایشو تھا وہ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کو تحلیل کرنا چاہتا تھا ہمیں اس نے استعمال کیا لیکن جب ہم اس دور کے واقعات و حقائق میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں تو خود ایسی چھیڑخانیوں کی شوق تھی ہم نے کافروں کو سبق سکھانے کے لیے خود اپنی شوق اور چائس کے ساتھ مذہب کا نامناسب سیاسی و جہادی استعمال کیا پوری قوم کو جہادی پروگراموں میں لگایا اور ایسے مضبوط جہادی گروپ تشکیل دیے، مشترکہ دشمن کا پلان اٹھاتے ہوئے جن کی معاونت کے لیے ہم نے عالمی تعاون لیا جب تھوڑا ملا تو مونگ پھلی کہا جب پورا ملا تو بسم اللہ کہا۔دوسرے انڈیا کے بالمقابل ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ کرائے کے سپاہی کی رہی ہم امریکا و مغربی طاقتوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے میں پیش پیش رہے اور بدلے میں خدمات کے حجم سے بڑھ کر بھاری معاوضہ وصول کرتے رہے یہ کوئی برابر کی دوستی یا اصولوں کی جدوجہد نہیں تھی محض مفادات کی گیم تھی جس میں ہماری طرف سے دوھری تہری بے اصولیاں بھی ہوئیں انہوں نے ہمیں جو معاشی و فوجی امداد اس شرط کے ساتھ دی کہ اس کا استعمال محض سوویت جبر کے خلاف ہوگا انڈین جمہوریت کے خلاف ہرگز نہیں ہوگا ہم نے اس عہد کی پاسداری کرنے کی بجائے انڈیا سے جنگیں چھیڑ دیں آخر میں ہم اس حد تک نیچے چلے گئے کہ ٹیررازم کو جیسے اپنی قومی پالیسی بنالیا کبھی جہاد کشمیر کے نام پر اور کبھی جہادِ افغانستان کی جدوجہد کے نعرے لگاتے ہوئے ایسے گروپس کی کبھی کھلی اور کبھی ننگی حمایت کی جن کو ختم کرنے کے لیے ہم بھاری رقوم اور حساس ہتھیار حاصل کرتے رہے دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے انہیں اندر خانے توانا بھی کرتے رہے یہ تلخ حقائق ہیں جنہیں تسلیم کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہیے۔ آج ہمارے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ جس نوع کی ہانکتے پھررہے ہیں اس میں بھی دانش و شعور یا حقائق شناسی کی کوئی رمق نہ ہے محض یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ بھارت امریکا اعلامیہ گمراہ کن ہے یا یہ بیان سفارتی اصولوں کے منافی ہے یہ کہ ٹیررازم کے بیج بونے میں واشنگٹن کا کردار ہے اور ہم اس کی قیمت چکارہے ہیں اب ہمیں ڈالرز ملنے بندہوگئے ہیں تو دوڑ کر چائینہ کی گود میں بیٹھ گئے ہیں تو کیا چائینہ ہمارے وہ خرچے اُٹھائے گا جن کے ہم سات دھائیوں سے عادی رہے ہیں اور امریکی جو ادائیگیاں ہمیں کرتے رہے ہیں شہدسے میٹھے کی بات تو تب تھی جو وہ ہمیں IMFکی چوکھٹ پر ناک رگڑنے سے بچانے آجاتا، حالت ہماری یہ ہے کہ ہم لعنتیں بھی امریکیوں پر ڈالتے ہیں اور ملک چلانے کے لیے مرہون منت بھی IMF کے ذریعے امریکنوں کے ہیں، جب امریکیوں نے ہمیں جمہوری تسلیم کرتے ہوئے جمہوری ممالک کی کانفرس میں مدعو کیا تھا تو ہم کس کے کہنے پر نہیں گئے تھے ؟ ہماری خارجہ پالیسی کے ذمہ داران کو کبھی کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے اور نہیں تو انڈیا کو دیکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی میں موجود بلنڈرز کی درستی کا اہتما م کرلینا چاہیے۔انڈیا نے کرائے کے ٹٹو بننے کی بجائے اپنی خارجہ پالیسی کو ہمیشہ ایک اعتماد اور وقار کے ساتھ چلایا ہے اس سے بڑا ثبوت کیا ہے کہ رشیہ سے تعلقات بگاڑے بغیر وہ پوری خودداری کے ساتھ امریکی پارٹنر بن چکا ہے اور اپنی قوم کے لیے برابری کی سطح پر ثمرات سمیٹ رہا ہے کیا یہ انڈین خارجہ پالیسی کی عظمت نہیں ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں بیک وقت اسے اپنا قابلِ اعتماد دوست اور حلیف خیال کرتے ہیں چائینہ سے سرحدی جھگڑوں اور جھڑپوں کے باوجود وہ اپنے کاروباری مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتا، پاکستان سے مخالفت کے باوجود وہ پورے عالمِ اسلام سے بہترین تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ونر کی پوزیشن میں ہے مسلم ورلڈ کے بڑے بڑے دارالحکومتوں میں مودی کی جتنی آؤ بھگت ہوتی ہے اور جس طرح ان کے تمام بڑے سویلین قومی ایوارڈ مودی کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں جیسے کہ حال ہی میں مصر کے صدرعبدالفتح الیسسی نے قاہرہ میں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ”آرڈر آف دی نیل“ پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اپنی دشمنیوں کو دوستیوں میں بدلیں اور انڈیا دشمنی کا کیڑا اپنے دماغ سے نکال باہر کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں