مصریات سے اقتباس

میری کتاب “مصریات” سے آپ کے لئے ایک دلچسپ انتخاب۔ جب اسوان ائیرپورٹ پر میرا ٹکٹ اڑ گیا ۔۔
مائل بہ پرواز ٹکٹ۔
Misaryat say Iktabas
غرض کچھ دیر بعد بورڈنگ شروع ہوئی اور مسافر جہاز کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ جو آندھی سے ذرا ہی کم تھی اور رن وے پر گرد چھائی ہوئی تھی۔ میں طیارے میں اندر جانے والے مسافروں کی قطار میں سب سے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ بالآخر سیڑھیاں چڑھ کر جہاز کے دروازے پر پہنچا تو وہاں کھڑے ہوئے ایک موٹے سے سٹیورڈ نے مجھ سے بورڈنگ کارڈ مانگا۔ میرے چونکہ دونوں ہاتھ خالی نہیں تھے، میں نے اسے اشارے سے بتایا کہ وہ قمیض کی جیب سے بورڈنگ کارڈ نکال لے۔ وہ تھوڑا مسکرایا، اور غالباً یہ اس کی آخری مسکراہٹ ثابت ہونے والی تھی ۔ پھر اس نے ماہر جیب تراش کی طرح دو انگلیوں سے میرا بورڈنگ کارڈ باہر کھینچ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میرا واپسی کا ٹکٹ بھی چپک کر باہر نکل آیا ۔ ہوا کے ایک تھپیڑے سے یہ ٹکٹ اس کے ہاتھ سے نکل کر مائل بہ پرواز ہوا۔ میں نے اور اس موٹے سٹیورڈ نے اس کو تھامنے کی بڑی کوشش کی ،مگر وہ تو اُڑ گیا اور ہاتھ نہ آیا۔ اب وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح ہوا کے دوش پر کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہم دونوں تیزی سے سیڑھیاں اتر کر اس کے پیچھے بھاگے، لیکن جیسے ہی ہم اس کے قریب پہنچتے وہ کسی شرارتی تتلی کی طرح وہاں سے اڑ کر کچھ قدم اور دور ہو جاتا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ہم دونوں اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ کھڑکیوں میں سے یہ نظارہ دیکھ کر دھیمی آنچ میں مسکرا رہے تھے۔ ہم دونوں بھاگتے ہوئے

رن وے پر کافی دور نکل تک آئے تھے۔ وہاں سیکیورٹی پر مامور ایک سپاہی نے جب ہماری بے بسی دیکھی تو اس نے بھی حسب استطاعت اپنا حصہ ڈال کر ہمارے ساتھ بھاگنے کی کوشش کی ،پھر شائد وہ بھاگ نہ سکا یا اسے خیال آگیا تھا کہ وہ تو سیکیورٹی کا بندہ ہے اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ وہیں رک گیا اور بڑبڑاتا ہوا اپنے ڈیوٹی کے مقام پر واپس چلا گیا۔
ایک بار پھر ہم دونوں ہی میدان میں تھے اور جہاز سے کوئی فرلانگ بھر دور نکل آئے تھے ایسا لگتا تھا کہ بھاگ دوڑ کا یہ سلسلہ کم از کم آج کی تاریخ میں تو ختم ہونے والا نہیں تھا۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا تو تیز ہوا اس کو مزید بیس قدم دور اڑا کر لے گئی۔

Misaryat say Iktabas
پھر ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی ہمت ہاری تھی۔ پہلے تو وہ موٹا دھم سے زمین پر بیٹھ گیا، اس کا سانس اکھڑ گیا تھا اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ ابھی قے کر دے گا۔ اسے دیکھ کر میرے حواس بھی ساتھ چھوڑ گئے اور میں بھی رک گیا اور پھر میری آنکھوں کے سامنے ہی ایک بڑا بگولہ نما جھونکا میرے ٹکٹ کو اٹھا کر آسمان کی بلندیوں کی طرف لے گیا اور پھر وہ کہاں گیا کچھ خبر ہی نہ ہوئی۔ قدرتی طور پر میں پریشان تھا کہ میرا ایک طرف کا ٹکٹ ضائع ہوگیا اور یہ کہ اب شائید مجھے نیا خریدنا پڑے یہ کم از کم اسی پاؤنڈ کا خرچہ تھا۔
ہم دونوں شکست خوردہ سپاہیوں کی طرح واپس آگئے۔ راستے میں اس نے مجھے کہا کہ میں بالکل فکر نہ کروں وہ کپتان کو کہہ کر ابو سمبل ایئرپورٹ والوں کو اطلاع کرا دے گا اور وہاں اترتے ہی میرا متبادل ٹکٹ مجھے مل جائے گا۔
جہاز میں داخل ہوا تو سب مسافر مجھے ہمدردی سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دو شرارتی قسم کے امریکی ابھی تک مسکرائے جارہے تھے۔ غرض اس بھاگ دوڑ کی وجہ سے جہاز کوئی دس منٹ تاخیر سے اڑا۔ جہاز کا کپتان اپنے کاک پٹ سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا جیسے ہی سیٹورڈ نے ایک پرچی پر میرا نام اور دیگر کوائف لکھ کر اسے تھمائے اس نے فوراً ابو سمبل ایئرپورٹ پر وائرلیس سے پیغام دے دیا۔
کوئی ایسی لمبی چوڑی فلائٹ نہ تھی اس لئے جہاز کو زیادہ بلندی پر اڑانے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور وہ نیچے نیچے ہی پرواز کرتا رہا۔ جس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے اس سارے علاقے کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا اور بار بار نظر آتی ناصر جھیل کی خوبصورتی سے محظوظ ہوتے رہے ۔یہ فرض کر کے کہ سارے مسافر اپنے ہوٹلوں سے ناشتہ کرکے اور چائے پانی پی کر آئے ہوں گے، ایئرلائن والوں نے مشروبات کا تکلف بھی نہ کیا، بلکہ وہ موٹا سٹیورڈ تو اپنی کرسی سے ہلا تک بھی نہیں اور وہیں بیٹھا اپنی تھکن اور سانسیں درست کرتا رہا۔

Misaryat say Iktabas
ابو سمبل کا ایئرپورٹ اس وقت ریلوے کے ایک درمیانے سے ریلوے سٹیشن کی طرح کی عمارت میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہال اور دو کمروں پر مشتمل تھا۔ یہاں کوئی بھاگ دوڑ یا چہل پہل نہیں تھی، بلکہ یہ سنسان ہی نظر آ رہا تھا۔ یہاں اسوان سے دن میں دو پراوزیں آتی تھیں ،جن میں یہی جہاز استعمال ہوتا تھا۔ جیسے ہی میں جہاز سے اتر کر ہال میں آیا تو وہاں ایئرلائن کا ایک مصری ملازم ہاتھ میں میرے نام کا پلے کارڈ لئے کھڑا تھا ۔ میں اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے اشارے سے مجھے استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف جانے کو کہا۔ وہاں میرا متبادل ٹکٹ تیار پڑا تھا۔ کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے لڑکے نے پہلے تو آج کے واقعہ پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کچھ اس ندامت سے کیا جیسے اس حادثے میں سارا قصور اسی کا تھا۔ اور پھر مجھے اسوان واپسی کا ٹکٹ تھما دیا۔ اسی سارے عمل میں بمشکل پانچ منٹ کا وقت لگا ہوگا جو ایک بڑی ہی متاثر کن بات تھی اور تحسین کے لائق تھی۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا جہاں ایئر لائن والوں کی طرف سے دی جانے والی ایک کوسٹر بس کھڑی تھی۔ میں بھی چھلانگ مار کر اس میں سوار ہوگیا اور وہ اپنی منزل یعنی فرعونوں کے عظیم مندر کی طرف روانہ ہوگئی۔
۔
مصریات
محمد سعید جاوید
بک ہوم پبلشرز لاہور

اپنا تبصرہ بھیجیں