‏سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے

‏سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کَسی ہے کہ دُنیا رگوں میں چلتی ہے

تمام آنکھوں میں آنسو ہیں، کیسے ہوتے ہیں
وہ لوگ جن کے لئے زندگی بدلتی ہے

تمہیں خیال نہیں ‘ کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے ‘ لیکِن اُداس چلتی ہے

وہ چال ہو کہ بدن ہو ‘ کمان جیسی کشِش
قدم سے گھات ‘ ادا سے ادا نکلتی ہے

بِکھر گئے مجھے سانچے میں ڈھالنے والے
یہاں تو ذات بھی سانچے سمیت ڈھلتی ہے

خزاںؔ ہے حاصِلِ ہنگامہءِ بہار و خزاں
بہار پُھولتی ہے ‘ کائنات پَھلتی ہے

محبوب خزاںؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں