زندگی کی جھولی میں

چوکی سماہنی کے اشرف جنجوعہ اسلام آباد میں منوں مٹی تلے جا پہنچے ۔ ہنستا مسکراتا اشرف جنجوعہ اگرچہ آزاد کشمیر کا رہنے والا تھا مگر اس کا مسکن اسلام آباد تھا۔ وہ کاروبار کرتا،سیاست میں حصہ لیتا، ادب اس کا چسکا تھا ، سو اس کی دوستیاں تمام شعبوں میں تھیں۔ ایک زمانے میں اشرف جنجوعہ آزاد مسلم کانفرنس کا حصہ تھے پھر وہ لبریشن لیگ میں چلے گئے ، اس کے بعد وہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کا حصہ بنے ،ان کا یہ تعلق برسوں پر محیط رہا۔ اگرچہ ان کی دوستی چوہدری یاسین سے بھی تھی مگر ان کی قربت زیادہ تر آزاد کشمیر کے سابق صدر صاحبزادہ اسحاق ظفر اور موجودہ صدر بیرسٹر سلطان محمود سے رہی بلکہ جب بیرسٹر سلطان محمود پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کا حصہ بنے تو اشرف جنجوعہ کا رخ بھی پی ٹی آئی کی جانب ہو گیا۔ ہماری سیاست میں ایسے بہت سے کردار سامنے آتے ہیں جو بظاہر بڑے عہدوں پر نہیں پہنچتے مگر وہ خود بہت بڑے ہوتے ہیں ، اشرف جنجوعہ بھی ایسے ہی کرداروں میں سے ایک تھےاشرف جنجوعہ اسلام آباد کی سیاسی ، سماجی اور ادبی تقریبات کی رونق تھا،اس کی دوستیوں کا سلسلہ کاروباری افراد سے شروع ہوتا ہوا اہل سیاست تک پھیلتا، پھر اہل صحافت کو چھوتا ہوا ادبی دنیا میں خوشیاں بانٹتا۔ اب ہم ان کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں اور اب اس کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا ہے ۔
زندگی کی جھولی بڑی عجیب ہے۔ اس میں سے لوگ پھسلتے جاتے ہیں ۔ ابھی چند ہفتے پہلے نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ بھی چلے گئے تھے۔ ہماری سیاست اور سماج کا وہ بھی زندہ کردار تھے۔ انہوں نے اپنی تقریروں ، تحریروں اور شاعری کے ذریعے سماج میں ہونے والی نا انصافیوں کو طنز کے تیر سے بیان کیا ۔گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک زمانہ ڈاکٹر امبر شہزادے کا معترف تھا۔ وہ زندگی کی بازی ہار کریادوں میں جیت گیا۔گورنمنٹ کالج لاہور سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں وہاں ایک مذاکرہ ہوا ، اس مذاکرے میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا، یہاں پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے پولیس کے ایک سابق آئی جی مہر ظفر عباس لک نے پوچھا کہ ” آپ نے الیکشن میں تاخیر کی تمام ذمہ داری عدلیہ پر ڈالی۔ آپ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ نگران حکومت نوے دنوں کے لئے ہوتی ہے اور نوے دنوں کے اندر ہی الیکشن ہونا ہوتے ہیں۔ آپ نے وفاقی حکومت پر بھی کوئی بات نہیں کی جو الیکشن سے بھاگ رہی ہے بلکہ آپ نے سب کچھ عدلیہ پر ڈال دیا۔ آپ نے آئین کی بات ہی نہیں کی ، آپ نے الیکشن کمیشن کی بددیانتی کی بات نہیں کی اور نہ ہی وفاقی حکومت کی بزدلی کا تذکرہ کیا، 13 پارٹیاں جو اکٹھی ہیں وہ ایک جونئیر سیاستدان سے بھاگ رہی ہیں ۔ جس نے آپ سے بعد میں سیاست شروع کی، آپ بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں مگر آپ میں سچ بولنے کی اتنی ہمت نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ ہم ڈر گئے ہیں ، ہم ڈر کے بھاگ رہے ہیں ۔ آپ الیکشن لڑیں، یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ جیتیں گے تو پھر لڑیں گے؟؟”۔ اس کے جواب میں شاہد خاقان عباسی صرف یہ کہہ پائے ” جو حکومت کر رہی ہے وہ بھی غلط ہےاور جو عدلیہ کر رہی ہے وہ بھی غلط ہے۔” پتہ نہیں درست کیا ہے؟۔ ہماری سیاست نے بھی کیا کیا عجیب لوگ متعارف کروائے ہیں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے ۔ جنہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ آئین کیا کہتا ہے ۔ شاید ہماری سیاست جھوٹ کی پروردہ ہے۔
زندگی کی جھولی میں دکھوں کے سوا کیا ہے۔ چند روز پہلے میں اپنے دوست ہارون کے ہمراہ مکھڈ شریف گیا جہاں شکیل ہاشمی سے ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کرنا تھی۔ اس موقع پر سید اظہر، خالد لودھی، پروفیسر محمد سہیل بدر اور صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد محمود نظامی سے ملاقات ہوئی۔ مکھڈ ایک تاریخی قصبہ ہے، یہاں قدیم ترین لائیبریری ہے جہاں حضرت علی علیہ السلام سمیت دیگر اکابرین کے ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی نسخے موجود ہیں۔ بلاشبہ اس لائیبریری میں ایسے ایسے نادر و نایاب نسخے موجود ہیں جو تہران اور انقرہ میں نہیں ۔ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ میں دریائے سندھ کے کنارے واقع مکھڈ شریف بہت قدیم قصبہ ہے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب 326 قبل از مسیح سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان جنگ ہوئی تھی تو لشکر کے کچھ لوگ بھاگ کر مکھڈ آ گئے تھے۔ یہ تاریخی قصبہ نوشیروان عادل کے دور سلطنت فارس کا حصہ تھا۔ سومنات پر حملے کرنے والا محمود غزنوی مکھڈ سے گزر کر گیا۔ 1192 عیسوی میں شہاب الدین غوری کے بعد مکھڈ حاکم لاہور قطب الدین ایبک کے زیر انتظام آگیا1520 میں جب ابراہیم لودھی حکمران بنا تو مکھڈ حاکم ملتان کے زیر نگیں آ گیا۔ اکبر کے دور میں مکھڈ کے حاجی احمد پراچہ نئے ایجاد کردہ دین الہٰی کے خلاف جدو جہد کرنے والوں میں پیش پیش تھے ۔ یہاں خواجہ زین الدیناور مولانا محمد علی مکھڈوی کے مزارات ہیں۔ یہاں نظامیہ ، چشتیہ اور قادریہ سلسلہ کے بزرگوں کے مزارات ہیں۔ بھٹو کے قریبی ساتھی پیر صفی الدین کا تعلق مکھڈ سے تھا۔ موجودہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے سسرال پیر گھرانے کا تعلق بھی مکھڈ سے ہے۔ زلفی بخاری کا آبائی علاقہ زیارت بیلہ بھی مکھڈ کے قریب ہے۔ مکھڈ میں گیارہ پتن ہیں جنہیں گھاٹ کہا جاتا ہے ،کبھی مکھڈ بہت بڑی منڈی ہوتا تھا اور یہاں سے تجارتی سامان کشتیوں کے ذریعے سکھر جایا کرتا تھا۔ اس تاریخی قصبے میں مساجد ، گوردوارے اور مندر صدیوں کو ساتھ لئے ایستادہ ہیں ۔ یہاں کے مکانات تاشقند و بخارا کی یاد دلاتے ہیں ۔ کالا باغ یہاں سے زیادہ دور نہیں، بس یوں سمجھ لیجئے کہ مکھڈ میں سنگلاخ پہاڑوں کے سبب دریائے سندھ سکڑا ہوا نظر آتا ہے جبکہ کالا باغ پہنچ کر یہ شیر دریا پھیل جاتا ہے۔ تاریخی قصبوں کو دیکھو تو پھر بھی دکھ ہوتا ہے کہ زندگی کی جھولی میں دکھوں کے سوا کچھ نہیں ۔ ہر کوئی محو انتظار ہے، کوئی کسی کی دید کے لئے ، کوئی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے اور کوئی جہان دیگر کی یاد میں گم ہے۔ زندگی کی جھولی سے خوشیاں تلاش کریں بھی تو نوشی گیلانی کا شعر یاد آ جاتا ہے کہ

وہ خود تو تتلیوں کو لئے گھومتا رہا
اور مجھ کو خط میں لکھتا رہا انتظار کر

اپنا تبصرہ بھیجیں