شادی طلاق میں پھنسا فنونِ لطیفہ!

زیبائی میں مقصدیت ڈھونڈنا کوئی عیب نہیں، نہ مقصدیت کسی بگاڑ کے دریچے کھولتی ہے، فنونِ لطیفہ کسی تھیٹر میں ملے یا ٹیلی ویژن پر ، کسی کینوس یا کسی لیکچر تھیٹر میں، مخصوص پانچ قسموں میں ہو یا سات میں، بہرحال فنونِ لطیفہ کی ہر قسم انسان کے جمالیاتی ذوق اور فکری رعنائی و شہنائی یا آنسو اور درد کو معنی دیتی ہے۔ جمالیاتی حِس کے اظہار کی خاموشی و بازگشت کو معاشرہ معنی دیتا ہے اور یہ معاشرے کو۔ فنون لطیفہ (fine arts)کی اقسام میں موسیقی، مصوری، شاعری، سنگتراشی اور رقص کے ساتھ ساختی و تعمیری ڈیزائننگ (آرکیٹیکچر ) اور فلم بھی جلوہ افروز ہیں۔
خیر، اسلام میں چونکہ رقص پر پہرے، مصوری پر ایک قدغن اور سنگتراشی پر الگ سے سنگ باری ہے چنانچہ ہمارے ہاں فنونِ لطیفہ جڑ نہیں پڑ سکا۔یہ درست نہیں کہ ہر حال میں فنونِ لطیفہ اسلام مخالف ہی ہے۔ واضح رہے کہ معاشرتی بناؤ کیلئے خالص سائنس کے سنگ خالص فائن آرٹ سماجی بناؤ ، کلچر اور تہذیب کی آکسیجن ہے گویا شَرعی عُذر کو مدنظر رکھ کر بھی کچھ چیزیں دریافت کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ایسی دریافت و ایجاد کیلئے لیڈرشپ میں مہارتوں اور صداقتوں کا مادہ ضروری ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی ہمارے ہاں آمریت ہے سو جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی، ہمارے ہاں غربت ہے پس چوری چَکاری نہ رک سکی، یہاں انتہا پسندی مضبوط ہے لہٰذا امن کمزور ہے۔ یہ نہیں، وہ نہیں، لہٰذا ہم یہاں ہیں وہاں نہیں…یہ سب باتیں تساہل اور جمود کے علاوہ عاقبت نااندیشی کا رگ و پے میں بسیرا ہے۔ درمیانہ راستہ بھی ایک راہ ہوتی ہے، اعتدال پسندی پر مبنی نصاب سازی بھی کی جا سکتی ہے۔ کیا ترقی پسند شعرا بہت کچھ لب و رخسار سے باہر نہیں لے آئے؟ شرط بس وہی کہ لیڈر شپ بانجھ نہ ہو۔ بانجھ لیڈرشپ اندر کی کمزوریوں کے سبب اس قدر خوفزدہ ہوتی ہے کہ اپنی اولاد، اپنے شاگردوں اور جونیئرز کو پنپنے ہی نہیں دیتی کہ اِن کی جگہ چِھن جائے گی۔
ایک محفل میں عالمی شہرت یافتہ شیما کرمانی سے ملاقات ہوئی، ہم نے ان کی رقص پسندی اور ان کے رقص پیہم ہونے پر خراج تحسین بھی پیش کیا لیکن ان کی زبان پر فلم اور صحافت کے حوالے سے مسلسل شکوہ تھا۔ ہم ان سب چیزوں سے دور بسنے والوں میں سے تھے لیکن ان کے فن، تگ و دو، اور ناموافق ضیائی حالات میں بھی رقصِ پیہم کے سبب’’غازیوں‘‘ میں گردانا، پتہ نہیں ان کا شکوہ کتنا درست تھا یا کتنا غلط یہ نہیں جانتے بہرحال رَقص و غِنا اور موسیقی کو پذیرائی تو ہے مگر اس سلسلہ میں بطورِقیادت ان کا کردار کیا رہا یہ اہم بات ہے جسے سپردِقلم ہونا چاہئے، شاید اگلی کسی ملاقات کے بعد ہو سکے سردست کچھ دکھائی نہ دیا۔
مولاجٹ کے ناصر ادیب کو ایک بزم میں دیکھا کہ وہ اّسی کی دہائی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، چلو ہوگئی اس زمانے میں انٹرٹینمنٹ اب آگے بڑھنا چاہئے، اپنے شعری ذوق سے انہوں نے حاضرین سے داد ضرور سمیٹی لیکن کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور فلم کی صحافتی سچائی سے وہ بہت دور دکھائی دئیے، ہم نے ہلکا سا کہا بھی لیکن ہم بھی تومولاجٹ ماحول سے باہر نہ آسکے۔ فلم میں بارہا قیامت دکھانے والے آج فلم میں صحافت بھی تو دکھا سکتے ہیں کیونکہ عہدحاضر میں فلم صحافتی آنگن کا پُراثر کامران حصہ ہے۔ لب و رخسار اور شادی و طلاق زندگی کا ’’فرض‘‘ سہی لیکن تربیت سازی ، مکالمہ، پروفیشنلزم ، سائنس و ٹیکنالوجی، مسیحائی اور انجینئرنگ، پھر معاشرتی و معاشی حقائق بھی تو ’’واجب ‘‘ہیں۔ تفریح واقعتاً تفریح ہے مگر مقصدیت کا تڑکا کوئے نگار کو سماجی کوئے یار بھی تو بنا سکتا ہے؟ بےہنگم موسیقی، محدود قلم کاری اور فکری بانجھ پن یا گلوبل ویلیج چیلنجز کی کم علمی کے باعث فنونِ لطیفہ اور صحافتی جُزیہ فلم کس قدر اثرات نقش کر پائے گی؟ ایک بڑی اور بھری بیٹھک میں سید نور سے ہم نے عرض کیا آپ جیسے خوش بیان کی طرف سے خواہشوں کے غبار میں کسی سحر کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور اس دشت و دیار میں کَٹی عمر میں منتظر بھی کہ کوئی ایسا کلاسیکل کرشمہ ہوجائے اور آپ کے قلم قبیلہ کی کرامتوں سے کسی فلم، ڈرامہ میں:
کوئی لڑکا گاؤں کی کچی سڑک اور آندھیوں کی فضا سے ہوتا شہر پہنچے، پڑھ لکھ کر ایٹمی توانائی کی ٹیم کا حصہ بن کر پاکستان کی جوہری توانائی میں اپنا کردار ادا کرے تو ایسی عکس بندی میں کیا رکاوٹ ہے؟ کوئی انسانی حقوق کا پرچار کرتا کراتا وزیر بن جائے مگر اشرافیہ اور مقتدر اس کا جینا حرام کردے۔ کیا ضروری ہے کہ فلم میں محبوبہ کی بےوفائی ہی کے سبب اس کے بھائی ہی کے ہاتھوں مرا جائے؟ ایسا بھی تو ممکن ہے کوئی تنگ دلوں کی تنگ گلی سے کشادگی اور علمیت کے درپہ پہنچے۔ وطن دوستی میں پلیجرزم ، علمی بدعنوانی اور حاسدین سے کنی کترا کر چلے تو اسے کم ظرف مار ڈالیں مگر بعد میں پتہ چلے کہ مارنے والوں نے وہ انمول اثاثہ نیست و نابود کردیاجس کی ویکسین سازی نے قاتلوں کے بچوں کو’’معاشرتی و علمی و حاسدی ناسور‘‘سے بچا لیا! کیا ضروری ہے ہر فلم میں ہیرو کو پولیس ہی سے مروایا جائے؟ کھلاڑی، ڈاکٹر، فزیو تھراپسٹ، انجینئر، استاد اور ایگریکلچرسٹ کو اس کے ایکوسسٹم میں فلما کر کھڑکی توڑ رش ممکن ہے! فلم ایک میڈیا سائنس ہے جس میں ڈیزائننگ اورآرکیٹیکٹ کے پہلوؤں کو ہیرو کے سنگ ہیروئن بنایا جاسکتا ہے گر فنونِ لطیفہ کی قیادت بانجھ نہیں۔ کاش کوئی دکھائے کہ کشمیر آزاد بھلے ہی نہ ہوا ہو لیکن کسی کشمیری کے نوبل لاریٹ ہونے کا مثبت اثر کیسے ہوتا ہے۔ جو کہتے ہیں سینما زوال پذیر ہے انہیں بتائیے کہ نیٹ فلیکس و ایمازون سمیت متعددپلیٹ فارم بین الاقوامی سینما گھر ہی تو ہیں، آپ کہاں ہیں؟ وَن منٹ جرنلزم اور شارٹ فلم بھی کمال چیزیں جنہیں بڑی اشیا میں سمویا جاسکتا ہے۔ سنا ہے فنون لطیفہ کی بھی کوئی وزارت ہوتی ہے مگر کس لئے؟
’’فائن آرٹ‘‘کی طاقت چائے والے کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم بنا سکتی ہے توآپ پاکستان کو ڈبہ پیک اور ہوم ڈیلیوری سیاست دانوں کے چُنگل سے نکال سکتی ہے۔ کیا دیکھا نہیں میڈیا سائنسز کی جادو گری نے ایک نیا پاکستان فراہم کردیا تھا وہ الگ بات ایک نہیں کتنے ہی سکے کھوٹے نکل آئے!

شادی طلاق میں پھنسا فنونِ لطیفہ!” ایک تبصرہ

  1. You’re actually a good webmaster. The website loading velocity is amazing. It kind of feels that you are doing any unique trick. Moreover, the contents are masterwork. you have done a great process on this topic! Similar here: najlepszy sklep and also here: E-commerce

اپنا تبصرہ بھیجیں